موقرجریدے جاپان ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق جاپان کے وزیر اعظم شیگرو اِشیبا نومبر 2024 کے وسط میں ایک بین الاقوامی فورم کے دوران چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ پہلی سربراہ ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ملاقات پیرو میں ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (ایپیک) اور برازیل میں گروپ آف 20 (جی 20) اجلاسوں کے موقع پر ہوگی اور اس میں دو طرفہ اور علاقائی مسائل پر گفتگو کا موقع بھی ملے گا۔ دونوں سربراہان کی اس ملاقات میں تجارتی پابندیوں، علاقائی سلامتی اور اقتصادی تعاون جیسے اہم موضوعات پر بات چیت متوقع ہے اور یہ ایشیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان گہرے اقتصادی مکالمے کے امکانات کو بھی تلاش کرے گی۔ ان مذاکرات کا مقصد جاپان اور چین کے درمیان پیدا شدہ تجارتی، سلامتی اور اقتصادی چیلنجز کو حل کرنا اور مثبت راہیں تلاش کرنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس اجلاس میں شیگرو اِشیبا کے ایجنڈے کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
جاپانی وزیراعظم کا بنیادی مقصد چین کو جاپانی سمندری خوراک کی برآمدات کی بحالی پر آمادہ کرنا ہے، واضح رہے کہ چین نے جاپانی سمندری خوراک پر اس وقت پابندی عائد کی تھی جب جاپان کی جانب سے فوکو شیما دائیچی نیوکلیئر پاور پلانٹ سے تابکاری سے متاثرہ پانی کو ٹریٹ کرنے کے بعد بحرالکاہل میں چھوڑا گیا تھا۔ جس کے بعد سے جاپان میں ماہی گیری کے شعبے کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اس پابندی کے خاتمے سے جاپانی ماہی گیری کے شعبے کو اقتصادی دباؤ سے بڑی حد تک نجات مل سکتی ہے جو چینی پابندیوں کے باعث متاثر ہوا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ اِشیبا کا ارادہ چین کی جانب سے جاپان کے اردگرد بڑھتی ہوئی فوجی موجودگی پر بات چیت بھی ہے، اس بات چیت میں ممکنہ طور پر چین کی جانب سے رواں سال اگست میں جاپانی فضائی حدود کی خلاف ورزی جیسے واقعات پر گفتگو بھی شامل ہوگی، جس نے ٹوکیو میں سلامتی کے خدشات کو جنم دیا تھا۔ بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین باہمی اعتدال اور واضح بات چیت پر زور دیا جا سکتا ہے تاکہ علاقے میں غلط فہمی یا کشیدگی سے بچا جا سکے۔
یہ ملاقات یقینا چینی اور جاپانی وزراء اعظم کو یہ موقع فراہم کرے گی کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان وزارتی سطح پر زیادہ اقتصادی تعاون کے فروغ کے لیے کوشش کریں۔ ایسا مکالمہ نہ صرف اقتصادی بحالی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے بلکہ مستقبل میں امن، ٹیکنالوجی شیئرنگ اور جدت کی راہیں بھی ہموار کر سکتا ہے۔ مزید برآں، شی کی جانب سے اِشیبا کو وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکباد کا پیغام اور ’’حکمت عملی اور باہمی فائدے‘‘ پر مبنی تعلقات کی امید، ٹوکیو اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ اگر یہ ملاقات کامیاب رہی تو توقع ہے کہ چین کی جاپانی سمندری مصنوعات پر پابندی کا خاتمہ تیز رفتار شکل اختیار کر سکتا ہے، جس سے جاپان میں ماہی گیری کے شعبے کو فائدہ ہو گا اور ممکنہ طور پر دو طرفہ تجارت میں بھی اضافہ ہوگا۔ اقتصادی تعاون پر کامیاب گفتگو موجودہ تنازعات کو بھی کم کر سکتی ہے اور ایک زیادہ مستحکم اور باہمی فائدہ مند تجارتی ماحول کو فروغ دے سکتی ہے۔ اس ملاقات میں فوجی تناؤ کی کمی پر بات چیت سے باہمی مفاہمت کا ایک نیا دور شروع کیا جاسکتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان موجود کشیدگی میں کمی کا موقع بھی مل سکتا ہے۔
اگرچہ جاپان امریکی سیکورٹی مفادات کے ساتھ جڑا ہوا ہے، لیکن چین کے ساتھ کھلے روابط یقینا غیر ارادی تصادم سے بچنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر دونوں ممالک خدشات کے بھنور سے باہر آکر باہمی معلومات کے تبادلے جیسے امور پر بھی اتفاق رائے کرلیں تو ایشیا میں امن کا خواب یقینا پورا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جاپان اور چین دونوں، علاقائی اور عالمی اثر رکھنے والے ممالک ہیں، وزارتی سطح پر مضبوط مکالمے کے ذریعے توانائی، موسمیاتی تبدیلی، اور انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ جیسے مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کا موقع حاصل کر سکتے ہیں۔ مضبوط سفارتی روابط سے مستقبل میں تنازعات کو بھی مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکے گا اور دیگر حساس معاملات پر بھی کنٹرول بڑھ سکے گا۔
شیگرو اِشیبا کی جانب سے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کا یہ اقدام جاپان اور چین کے تعلقات میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ملاقات متعدد پیچیدہ مسائل پر بات کرنے اور ایک زیادہ مستحکم اور تعمیری تعلقات کے دور کا راستہ ہموار کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اگر اس ملاقات سے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں تو یہ دو طرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ وسیع تر ایشیا پیسفک خطے کے لیے بھی ایک مضبوط اقتصادی اور سلامتی فریم ورک کا باعث بن سکتا ہے۔