اسلام آباد : پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف 25 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ایک کثیر ملکی دورے پر روانہ ہو گئے ہیں، جس نے سیاسی حلقوں میں دلچسپی پیدا کر دی ہے۔
نواز شریف کی رواں سال پاکستان واپسی بھی جسٹس عیسیٰ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ہوئی تھی، جس سے ان کی سرگرمیوں کے وقت پر قیاس آرائیاں ابھر رہی ہیں۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب مہینوں سے یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ نواز شریف لندن میں طبی معائنہ کے لیے روانہ ہوں گے۔
پارٹی رہنما صرف اس دورے کی ضرورت کی تصدیق کرتے رہے، تاہم میڈیا کی جانب سے بار بار سوال پوچھنے کے باوجود ان کے شیڈول کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔
ذرائع کے مطابق، نواز شریف دبئی کے لیے ایمریٹس کی پرواز کے ذریعے روانہ ہوئے، جہاں سے وہ طبی معائنے کے لیے لندن جائیں گے۔ لندن کے دورے کے بعد، ان کی آمد کی خبریں ہیں کہ وہ 29 اکتوبر کو امریکا روانہ ہوں گے، جہاں ان کا قیام تقریباً چار دن کا ہوگا، بعد ازاں وہ دوبارہ لندن واپس آئیں گے۔ اس کے بعد، اطلاعات ہیں کہ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز اور دیگر اہل خانہ ان کے ساتھ یورپ کے دورے میں شامل ہوں گے۔
نواز شریف کا یہ دورہ ایک اہم آئینی ترمیم کے پس منظر میں ہوا ہے، جس نے جسٹس منصور علی شاہ کو جسٹس عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس بننے سے روک دیا۔ حکومت نے پارلیمانی حمایت کی کمی کے باعث مبینہ طور پر “ہارس ٹریڈنگ” جیسے غیر روایتی طریقوں پر غور کیا ہے۔
نواز شریف کی یہ خاموشی سے روانگی اہم میڈیا کوریج سے بچنے کا باعث بنی ہے، جو ان کے عام طور پر نمایاں سفر سے مختلف ہے۔ یہ دورہ نہ صرف ان کی صحت کے حوالے سے اہم ہے بلکہ ملکی سیاست پر بھی اثر ڈال سکتا ہے، جس کا تجزیہ سیاسی مبصرین بڑے قریب سے کر رہے ہیں۔