سکھر،سول سوسائٹی نے کسانوں کوبااختیار بنانے کا مطالبہ کردیا

52

سکھر(این این آئی) سکھر کی سول سوسائٹی رہنماؤں نے کسانوں کو بااختیار بنانے اور ان کے تحفظ کے لیے وومن ایگریکلچر ورکرز ایکٹ کے فوری نفاذ کا مطالبہ کردیا یہ مطالبہ گزشتہ روز غیر سرکاری تنظیم ناری فاؤنڈیشن نے آواز فاؤنڈیشن کے تعاون سے کسانوں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے ایک ایڈووکیسی فورم کا انعقاد کیا۔ ناری فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر انور مہر نے فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 5 سال قبل کاشتکاروں کے معاشی اور سماجی تحفظ کے لیے خواتین زرعی ورکرز ایکٹ سندھ اسمبلی سے منظور کیا گیا تھا لیکن اب تک اس ایکٹ کے قواعد و ضوابط طے نہیں کئے گئے جس کے باعث ایکٹ پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ انہوں نے خواتین کسانوں یا زرعی کارکنوں کے قانون کو مزید موثر بنانے کے لیے تکنیکی ماہرین اور اسٹک ہولڈرز کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اس قانون کو جلد از جلد تشکیل دے کر نافذ کیا جائے۔ صحافی تاج رند نے فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمران اگر غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں تو فلاحی پروگراموں کے بجائے زراعت کو سپورٹ کریں اور کسانوں کا معاشی اور سماجی تحفظ یقینی بنائیں کسان دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہیں جو کہ ریاستی نظام اور بیڈ گورننس کا بڑا المیہ ہے. محکمہ ترقی نسواں کی ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار تھہیم نے کہا کہ سندھ حکومت خواتین کو ہر سطح پر بااختیار بنانے کے لیے کام کر رہی ہے، خواتین کسانوں کے تحفظ کے لیے یہ قانون صرف سندھ میں موجود ہے، جس پر عمل درآمد سے لاکھوں خواتین کسانوں کی زندگیاں بدل سکتی ہیں۔ . خواتین زرعی ورکرز کونسل کی کارکنان خانزادی چاچڑ اور نادیہ نے کہا کہ سندھ کے کسان قانونی تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے 14 سے 18 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ کسی بھی صورتحال میں کام کرنے کے لیے دیہاتوں میں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے، لاکھوں کسان خواتین خطرناک بیماریوں کا شکار ہیں، زیادہ تر حاملہ خواتین مناسب خوراک اور علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے انتقال کر جاتی ہیں۔ ناری فاؤنڈیشن کی پراجیکٹ ڈائریکٹر شازیہ عباسی نے کہا کہ سندھ وومن ایگریکلچر ورکرز ایکٹ 2019 کا مسودہ محکمہ قانون کو بھجوا دیا گیا ہے۔ سندھ وومن ایگریکلچر ورکرز ایکٹ 2019 پر مزید نظرثانی کے لیے تکنیکی ماہرین کی مشاورت اور اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کی ضرورت ہے۔ سندھ میں وومن ایگریکلچرل ورکرز ایکٹ میں بامعنی تبدیلی کے لیے مشترکہ کوششوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے محکمہ زراعت کے ایک افسر میر محمد کولاچی نے کہا کہ سندھ حکومت نے کسانوں کو گندم اور بیج سبسڈی کی مد میں 18 ارب روپے دیے ہیں۔