وہ جو گزر گئے

397

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے اور پھر زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے۔ ہر آدمی غم روزگار میں الجھا ہوا رہتا ہے اس کے شب و روز مصروف گزر رہے ہوتے ہیں، اور اسی دوران اس کو وقفے وقفے سے دو طرح کی اطلاعات مل رہی ہوتی ہیں۔ ایک خوشی کی خبر اور ایک غم کی خبر۔۔۔ خوشی کی خبر میں کسی کی شادی یا دیگر خوشی کی تقریب کا دعوت نامہ۔ پھر اس میں اپنے تعلق کی نوعیت کے اعتبار سے شرکت کا فیصلہ کرتا ہے ہاں جب کوئی غم کی خبر بالعموم کسی کے مرنے کی خبر ملتی ہے تو کسی نہ کسی طرح اس غم میں شریک ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ میت کے تین حقوق ہوتے ہیں نماز جنازہ، کندھا دینا اور قبر پر مٹی ڈالنا۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ نماز جنازہ میں تو ایک بڑی تعداد شریک ہوتی ہے پھر تقریباً آدھے لوگ نماز پڑھ کے چلے جاتے ہیں پھر کچھ لوگ تھوڑی دور تک یا میت بس تک کندھا دیتے ہیں۔ میت بس قبرستان کی طرف جاتی ہے تو کچھ لوگ پھر وہاں سے اپنے گھروں کو واپس ہوجاتے ہیں۔ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ اگر میت کسی بڑے آدمی کی ہو یا کسی بڑی برادری کے فرد کی، تو اس کے علاوہ عام طور پر نماز جنازہ میں جتنی تعداد شریک ہوتی ہے اس کے تقریباً تیس فی صد لوگ قبرستان تک جاتے ہیں۔ ہمارے ایک رکن جماعت جن کی اپنی معاشی مصروفیات بھی ہوتی تھیں ان کا یہ طریقہ تھا کہ کسی کے مرنے کی اطلاع ملتی تو کوشش کرتے کہ جنازہ اٹھنے سے پہلے اس کے گھر پہنچ کر لواحقین سے تعزیت کرتے، نماز جنازہ پڑھتے پھر میت کو کندھا اس طرح دیتے کہ گہوارے کے قریب ہی رہتے پھر قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد واپس غمزدہ خاندان کے گھر آتے تھوڑی دیر مرحوم کے بچوں، بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر پھر واپس جاتے۔ آج کل مصروفیت کا دور ہے اس لیے ہماری اکثریت نماز جنازہ پر ہی اکتفا کرتی ہے لیکن اگر ہمارے ساتھ کوئی انتہائی مجبوری، ایمرجنسی، بیماری اور معذوری نہ ہو تو کوشش کرکے تدفین کے سارے مراحل میں شرکت کرلی جائے تو اس کا نہ صرف سوگوار خاندان پر خوشگوار اثر پڑے گا بلکہ احادیث میں بہت بڑے ثواب کی خوشخبری بھی دی گئی ہے۔

ہم نے عنوان تو کچھ اور سوچ کر لگایا تھا لیکن تمہید ہی میں بات دوسری طرف چلی گئی لیکن یہ نکات بھی میرے ذہن میں مچلتے رہتے تھے کہ کسی وقت اس پر بھی کچھ تحریر کیا جائے ہوسکتا ہے کہ اس کے پڑھنے کے بعد ہم یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ پہلے سے کچھ زیادہ مراحل تدفین میں شریک ہوں گے۔ شاید مجھے بھی اس کا ثواب مل جائے۔ جب آپ کو اپنے کسی عزیز یا دوست کے دنیا سے گزرجانے کی اطلاع ملتی ہے تو ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن سے کافی عرصے سے آپ کا کوئی رابطہ ملاقات نہیں تھی لیکن جب ان کے مرنے کی اطلاع پڑھتے یا سنتے ہیں تو ذہن میں وہ شب و روز یاد آجاتے ہیں جو کبھی ہم نے ان کے ساتھ گزارے تھے۔ غم روزگار میں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے وہ کہیں ہم کہیں، ایسا نہیں کہ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہوں بلکہ شہر بھی چھوڑ کر نہیں گئے بس ہماری دنیائیں بدل گئیں مصروفیات بدل گئیں۔ ایک دفعہ میں بائیک میں پنکچر کے لیے دکان پر رکا تو وہاں ایک صاحب اپنی پنکچر بائیک لائے ہم ان کی شکل غور سے دیکھتے رہے وہ بھی بہ غور دیکھنے لگے پھر جلد ہی ایک دوسرے کو پہچان گئے ایک دوسرے کے نام بھول چکے تھے وہ بھی بتادیے پھر ہم نے حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ ہماری یہ ملاقات 50 سال بعد ہورہی ہے۔ اس درمیان نہ ہم کبھی شہر یا ملک سے باہر گئے اور نہ وہ۔ ایک زمانے میں ہمارے محلے میں رہتے تھے ان کے بھائی ہمارے ساتھ کارکن تھے اور ہم دونوں ایک ساتھ مٹی آٹا اسکیم کے تحت آٹا جمع کرکے مستحقین کو پہنچاتے تھے ان سے بھی سلام دعا ہوجاتی تھی۔

تین چار دن قبل تنظیم سائبان کے سربراہ حیدر علی حیدر انتقال کی خبر پڑھی تو شدید غم کی لہر گزر گئی ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ نظروں کے سامنے گھوم گیا 1976 میں ایک ٹیکسٹائل کمپنی کے اکائونٹس سیکشن میں ملازم تھا، اسی مل میں یہ کسی ڈپارٹمنٹ میں تھے دفتری امور کے سلسلے میں ملاقات میں نظریاتی ہم آہنگی کا عقدہ بھی کھل گیا۔ معلوم ہوا کہ یہ مشرقی پاکستان میں البدر یا الشمس کے قریب رہے ادبی اور قلمی آدمی تھے بتاتے ہیں کہ ہم نے ڈھاکا میں شرارت کے نام سے ایک چھوٹا سا اخبار بھی نکالا تھا یہ پھر ترانوے ہزار فوجیوں کے ساتھ ہندوستان کی جیل میں رہے۔ ان کے والد چاند خان رکن جماعت اور این ایل ایف کے فعال کارکن تھے ان سے بھی سلام دعا رہی ہے۔ حیدر بھائی نے اپنے اخبار شرارت کی ایک پروف ریڈنگ کی دلچسپ غلطی بھی بتائی کہ ایک دفعہ خبر کی سرخی لگی کہ ’’گورنر عبدالمنعم خان نے دس وزراء نامزد کردیے‘‘ بس اس میں یہ غلطی ہوگئی کہ نامزد کے ز کا نقطہ لگنے سے رہ گیا۔

بھارت کی جیل کے بھی کئی واقعات سنائے جیل سے فرار کے جو منصوبے بنائے اس کا بھی بتایا۔ پھر یہاں کراچی میں بھی وہ مشرقی پاکستان کے بہاریوں کی واپسی کے لیے بہت فعال رہے اسی لیے سائبان کے نام سے تنظیم بھی قائم کی۔ بعد میں بھی یہ ہمارے دفتر آتے رہے ملاقات بات چیت ہوتی تھی لیکن اب کئی برسوں سے رابطہ نہیں تھا۔ بڑا ہنستا مسکراتا فرد تھا جو ہمیں غمزدہ کرگیا دعا ہے اللہ تعالیٰ اس کی لغزشوں سے درگزر فرمائے، اس کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

اس خبر کچھ روز قبل ایک اور تحریکی ساتھی طارق موسیٰ جن کا اصل نام محمد حسین تھا کے انتقال کی خبر ملی یہ فاران کلب میں ہمارے ساتھ جاب کرتے تھے یہ جمعیت سے فارغ ہوکر آئے تھے ان کے بھائی صادق موسیٰ ایک زمانے میں نیو کراچی زون کے ناظم بھی رہے ہیں طارق موسیٰ کالج کمیٹی کے انچارج تھے ایک دفعہ یہ یوسف پلازہ کے ہوٹل میں بیٹھے تھے کہ دہشت گردوں نے ان پر حملہ کردیا ایک گولی سر میں ایک پیٹ اور ایک ٹانگ پر لگی مارنے والوں نے تو اپنا کام پورا کیا لیکن مارنے والے سے بچانے والا بہت بڑا ہے اسپتال لے جائے گئے سر کی گولی زیادہ خطرناک نہیں تھی آپریشن سے نکال دی گئی پیٹ کی گولی کے بارے میں ڈاکٹروں کی رائے تھی اس کا آپریشن نہ کیا جائے پیٹ میں رہے گی بھی تو کوئی خطرہ نہیں البتہ ٹانگ کی گولی کے لیے بڑا آپریشن ہوا جس کی وجہ سے انہیں ٹھیک سے چلنے میں دقت ہوتی تھی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ طارق موسیٰ بھائی کی مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ آمین

ان ہی دنوں میں ہمارے دوست اور جسارت سنڈے میگزین کے سابقہ ایڈیٹر اور معروف شاعر اجمل سراج کا انتقال ہوگیا، اطہر ہاشمی کے ساتھ ان سے ملاقاتیں رہتی تھیں، قلندرانہ مزاج کے سادہ طبیعت کے انسان تھے، آنکھوں میں محبت، چہرے پر شگفتگی اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ بکھری رہتی تھی ادب و احترام میں ڈوبی ہوئی گرجدار آواز میں بات کرتے تھے منفرد انداز کی شاعری کرتے تھے کبھی شہرت کے پیچھے نہیں بھاگے بلکہ شہرت ان کے پیچھے بھاگتی ہوئی نظر آتی تھی پچھلے دنوں جمعیت الفلاح نے ان کی شخصیت کے حوالے سے تعزیتی پروگرام بھی کیا تھا۔ دعا ہے اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنادے، آمین۔ جسارت کے کالم نگار ناصر حسنی کا بھی ان ہی دنوں انتقال ہوا یہ بھاولپور میں رہتے تھے میری ان سے کبھی بالمشافہ ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن میں ان کے کالم پابندی سے پڑھتا تھا شگفتہ انداز تحریر تھا۔ عدالتی نظام پر ان کی تنقیدی تحریریں اور پھر اصلاحات کے حوالے سے تجاویز بڑی جاندار ہوتی تھیں۔ ان کے بچوں یا دوست احباب سے گزارش ہوگی کہ عدالتی موضوعات پر ان کے جتنے کالم آئے ہیں انہیں ایک کتابی شکل میں لے آیا جائے تو بہتر ہوگا اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

آخر میں اپنی خالہ زاد چھوٹی بہن کا ذکر کرنا چاہوں گا جس کا 17 اکتوبر بروز جمعرات کو انتقال ہوا۔ بچپن ہی میں خالہ کا انتقال ہوگیا تھا پھر نانی نے بہن بھائیوں کی پرورش کی اس کی شادی 1979 میں ہمارے گھر سے ہوئی تھی امی سے بہت محبت کرتی تھی ہم بہن بھائیوں سے بھی اس کی ایک خاص انسیت تھی میں نے اپنی اس بہن کا اس لیے ذکر کیا کہ اس کی عادتیں عام خواتین سے ہٹ کر تھیں جب بھی ملاقات ہوئی تو مثبت گفتگو کرتی کسی کی برائی یا غیبت سے بچ کر جتنی ضرورت ہوئی اتنی بات کرتی۔ اس کی پوری زندگی صبر، مشقت اور خدمت کا استعارہ تھی۔ برسوں اس نے اپنے معذور اور بیمار سسر کی خدمت کی ایک بیٹا مکمل معذور تھا پندرہ سال کی عمر تک جیا، بستر پر پڑا رہتا کھانا کھانے سے لے کر دیگر ضروری کام دوسرے لوگ کرتے ان کے شوہر شرف الدین انتہائی محنتی، خوش اخلاق، ملنسار، عاجزی و انکساری کا پیکر تھے۔ دو تین برس قبل ان کا بھی انتقال ہوگیا کچھ عرصے وہ بھی صاحب فراش رہے ان کی بھی خدمت کی۔ زندگی زیادہ تر معاشی تنگدستی میں گزری لیکن کبھی کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں آیا اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے خود اس نے تیس سال سے زائد عرصہ ایک اسپتال میں نرسنگ کی جاب کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب کی خدمت کرنے والی نے اپنے لیے کسی سے کوئی خدمت نہیں لی اس کو ہارٹ اٹیک ہوا دو دن اسپتال میں رہی پھر ہمیں غمزدہ کرگئی اس کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں سب کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اور سب کی شادیاں کیں بچیاں اپنے گھروں میں مطمئن زندگی گزار رہی ہیں بیٹے بھی برسرروزگار ہیں دوماہ قبل ایک بہو کا زچگی کے موقع پر انتقال ہوگیا زچگی کے موقع پر جاں بحق ہونے والی خواتین کو ویسے ہی شہادت کا رتبہ ملتا ہے۔ ہماری ربّ العزت سے دعا ہے کہ ہماری اس صابر شاکر بہن کی لغزشوں سے درگزر فرمائے، مغفرت فرمائے، اس کی قبر کو اپنے نور سے بھردے اور بچوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین