مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی

255

کہا جاتا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ حکمرانوں کا وعدہ تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت جو آئینی عدالت قائم ہوگی انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد اس کا سربراہ بنایا جائے گا۔ اس طرح وہ ریٹائرمنٹ کے بعد دس بارہ لاکھ پنشن بھی وصول کرسکیں گے اور آئینی عدالت کے سربراہ کی حیثیت سے 15 لاکھ تنخواہ اور دیگر پُرتعیش مراعات اس کے علاوہ ہوں گی۔ یوں قاضی صاحب کے وارے نیارے ہوجائیں گے اور وہ حسب سابق حکمرانوں کو انصاف کی فراہمی میں جُتے رہیں گے۔ راوی کا بیان ہے کہ قاضی صاحب نے حکومت اور مقتدرہ کو وہ تمام سہولتیں فراہم کیں جو آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے لیے انہیں درکار تھیں سب سے بڑی سہولت تو یہی تھی کہ ووٹوں کی خرید و فروخت اور سیاسی وفاداری تبدیل کرنے پر جو پابندی تھی وہ اُٹھالی گئی تھی اس طرح 26 ویں آئینی ترامیم کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل کرنا آسان ہوگیا تھا۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے ارکان کو اغوا کیا گیا اور انہیں سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کے لیے پُرکشش معاوضے پیش کیے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک ووٹ کی قیمت ایک ارب روپے تک پہنچ گئی۔ جو کمزور کردار کے لوگ تھے وہ اتنی بھاری پیش کش کے سامنے نہ ٹھیر سکے اور حکمرانوں کو پیارے ہوگئے۔

مولانا فضل الرحمن نے بتایا ہے کہ گیارہ ووٹ خریدے گئے تھے۔ قاضی صاحب کی آئینی عدالت کی سربراہی کا معاملہ اس لیے خراب ہوا کہ مولانا فضل الرحمن نے آئینی عدالت کو آئینی بنچ میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کردی۔ اس تجویز کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے قبول بھی کرلیا۔ چنانچہ

وہ شاخ ہی نہ رہی جس پر آشیانہ تھا

اور قاضی صاحب مجوزہ آئینی عدالت کے سربراہ بنتے بنتے رہ گئے۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں حکومت اور فوجی مقتدرہ کی پوری کوشش تھی کہ پی ٹی آئی اس میں حصہ نہ لینے پائے اگر کسی نہ کسی صورت میں حصہ لے بھی تو کامیاب نہ ہونے پائے۔ اس منصوبے میں سہولت کاری کے فرائض بطور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انجام دیے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’’بلے‘‘ سے محروم کردیا۔ حتیٰ کہ پارٹی کی رجسٹریشن تک منسوخ کرادی لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی بہت سخت جان ثابت ہوئی، وہ تمام رکاوٹوں کو روندتی ہوئی انتخابی اکھاڑے میں اُتری اور شدید دھاندلی کے باوجود اپنے 80 ارکان کے ساتھ قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئی، جہاں اسے اپنی شناخت کے لیے ایک مذہبی جماعت کا پلیٹ فارم استعمال کرنا پڑا، خواتین کی مخصوص نشستوں کو پارلیمانی جماعتوں میں تقسیم کرنے کا مرحلہ آیا تو الیکشن کمیشن نے پھر تحریک انصاف کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی لیکن عدالت عظمیٰ کے 9 ججوں نے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دے کر یہ کوشش ناکام بنادی۔ البتہ قاضی فائز عیسیٰ کو یہ گوارا نہ ہوا وہ ریٹائر ہوتے ہوتے یہ گُل کھلا گئے کہ الیکشن کمیشن اس فیصلے پر عملدرآمد کا پابند نہیں ہے۔

پانچ ججوں نے خفیہ ایجنسی کی مداخلت کے خلاف کھلا خط لکھا لیکن قاضی صاحب نے اسے عدالت عظمیٰ میں زیر بحث نہیں آنے دیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ عمران حکومت نے اپنے دور میں قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نااہلی کا ریفرنس دائر کیا تھا اور قاضی صاحب کے ساتھ براہِ راست مخالفت مول لی تھی لیکن اس ریفرنس کے بارے میں سب کو علم تھا کہ اسے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ کے دبائو پر دائر کیا گیا تھا اس میں عمران خان کی مرضی شامل نہ تھی خود قاضی صاحب کو بھی یہ حقیقت معلوم تھی لیکن انتقام انہوں نے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف سے لیا۔ ان کا موازنہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے کیا جاسکتا ہے جو اپنے دور میں اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی بنے رہے اور منصب قضا پر بیٹھ کر قانون و انصاف کو اُلٹی چھری سے ذبح کرتے رہے۔ اُس وقت اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو ہٹا کر عمران خان کو برسراقتدار لانا چاہتی تھی، اب معاملہ اس کے برعکس ہے لیکن عمران خان نواز شریف کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت جان اور پُرعزم ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے سارے اندازے غلط ثابت کردیے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ کو بھی ان کے مقابلے میں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ قدرت نے بھی قاضی کا ساتھ نہیں دیا اور وہ یہ کہتے ہوئے لندن چلے گئے۔

مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی

ان کی جگہ جناب یحییٰ آفریدی نے نئے چیف جسٹس کا منصب سنبھال لیا ہے۔ ان کا انتخاب 26 ویں آئینی ترمیم کے مطابق تین سینئر ججوں کے پینل میں سے عمل میں آیا ہے وہ اس پینل میں تیسرے نمبر پر تھے۔ دو جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب ان سے سینئر تھے لیکن سرکار کی نگاہِ انتخاب ان پر جا کر ٹِک گئی، اس انتخاب سے پہلے بعض وکیل لیڈروں نے بڑا شور مچایا تھا کہ یہ عدالت عظمیٰ کی روایت کے خلاف ہے ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے لیکن جب یحییٰ آفریدی نے چیف جسٹس کا حلف اٹھالیا تو سب کو چُپ سادھ گئی۔ بار ایسوسی ایشنوں نے انہیں مبارکباد کے پیغامات ارسال کردیے۔ تحریک انصاف نے پہلے تحریک چلانے کی دھمکی دی تھی لیکن پھر اس نے بھی سر تسلیم خم کردیا اور اس کے لیڈروں نے کہا ہمیں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ جن دو ججوں کو یحییٰ آفریدی نے سپرسیڈ کیا ہے انہوں نے بھی مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور وہ اپنے سے جونیئر جج کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ نئے چیف جسٹس بھی اپنے سینئر ساتھیوں کی رائے کو اہمیت دے رہے ہیں۔ اس طرح عدالت عظمیٰ میں ججوں کے درمیان جو کھنچائو اور تنائو نظر آرہا تھا وہ ختم ہوگیا ہے۔ یہ بڑی سعادت کی بات ہے اور اس کا عدالت عظمیٰ میں زیر التوا مقدمات پر بہت مثبت اثر پڑے گا۔ پہلے فل کورٹ اجلاس میں زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کے لیے جسٹس منصور علی شاہ کے فارمولے کی منظوری دی گئی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ نئے چیف جسٹس اپنے سینئرز کو اہمیت دے رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی حکومت کی مریضانہ توقعات پر پورے نہیں اتریں گے اور وہ ان سے جان چھڑانے کے حربے سوچنے پر مجبور ہوجائیں گی۔ جس طرح ابھی سے کچھ لوگ 26 ویں کے بعد 27 ویں آئینی ترمیم لانے کا سوچ رہے ہیں، حالانکہ 26 ویں آئینی ترمیم ابھی پوری طرح برگ و بار نہیں لائی۔ کہا جارہا ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی جب پوری طرح اپنے اختیارات بروئے کار لائیں گے اور ان اختیارات کی گونج ان کے فیصلوں میں سنائی دے گی تو ’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘ کے مصداق حکمران بُری طرح سٹپٹا جائیں گے۔