سینیٹ کمیٹی نے عدالت عظمیٰ کے ججز کی تعداد بڑھانے کا بل منظور کرلیا۔پی ٹی آئی اور جے یو آئی کی مخالفت

183

اسلام آباد(نمائندہ جسارت،آن لائن ) سینیٹ کمیٹی نے عدالت عظمیٰ کے ججوںکی تعداد بڑھانے کا بل منظور کرلیا۔پی ٹی آئی اور جے یو آئی کی مخالفت۔تفصیلات کے مطابق سینیٹ قانون و انصاف کمیٹی نے عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کی منظوری کثرت رائے سے دیدی ،پی ٹی آئی اور جے یوآئی کے اراکین نے کمیٹی کی مخالفت کی،جمعہ کو سینیٹ قانون و انصاف کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت منعقد ہوا ،اجلاس میں کمیٹی اراکین کے علاوہ سیکرٹری قانون و انصاف سمیت دیگر حکام نے شرکت کی ،اجلاس میں پی ٹی آئی کی سینیٹر فوزیہ ارشد نے عدالت عظمیٰ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کا پرانا بل واپس لے لیا ،سینیٹر فوزیہ ارشد نے عدالت عظمیٰ میں ججوں کی تعداد 23 کرنے کے لیے بل کمیٹی میں پیش کیا تھا تاہم بعد میں کمیٹی نے فوزیہ ارشد کی درخواست پر بل واپس کر دیا، اجلاس میں سینیٹر ثمینہ ممتار زہری کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 62 میں ارکان اسمبلی کے لیے گریجویشن کی شرط شامل کرنے کے حوالے سے ایوان بالا میں پیش کیے گئے بل پر غو ر کیا گیا، رکن کمیٹی سینیٹر ضمیر حسین گھومرو نے کہاکہ بل میں ارکان اسمبلی بننے کے لیے گریجویشن کی شرط رکھنے کا ذکر کیا گیا ہے، اس موقع پر چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کا پارلیمنٹ میں راستہ ر وکنے کے لیے گریجویشن کی شرط قانون میں رکھی تھی ،انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف یہ سمجھتے تھے کہ محترمہ بی اے پاس ہیں گریجویٹ نہیں ہیں جس پر پرویز مشرف کو محترمہ کی گریجویشن کی ڈگری دکھائی گئی ،رکن کمیٹی سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہاکہ گریجویشن کی شرط سے بی بی نہیں شاید زرداری صاحب کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی، کمیٹی نے سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کی عدم موجودگی پر بل موخرکردیاگیا ،اجلاس میں لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی بل سے متعلق سیکرٹری قانون کی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پہلے یہ وزارتِ انصاف کے ماتحت کام کر رہا تھا، اب اسے انصاف و قانون کے ماتحت کر دیا ہے، انہوں نے بتایا کہ ڈائریکٹر جزل کو وزارت قانون نے تعینات کیا تھا ان کا ٹینور 3 ماہ پہلے ختم ہواہے، سیکرٹری قانون نے بتایا کہ پہلے مالی سال میں ڈیڈھ کروڑ روپے کا بجٹ ہے لیکن آگے ہم اس پر گرانٹ لے لیں گے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ جو چیزیں پاس ہو گئی ہیں ہم اس پر بحث نہیں کریں گے ،اگر ڈائریکٹر جزل کسی بھی وجہ سے غیر حاضر ہے کسی بھی افسر کو 90 دن کے لیے اضافی چارج دیا جا سکتا ہے، رکن کمیٹی سینیٹر ضمیر حسین گھومرو نے کہاکہ کرمنل جسٹس سسٹم پورے صوبے میں ہے آپ کو لیگل ایڈ دینی چاہیے، سینیٹر انوشہ رحمن نے کہاکہ آپ کے پاس ابھی اس کا اختیار نہیں آیا ،آپ نے بل بھی لے لیا ہے ،سینیٹر عبدالقادر بلوچ نے کہاکہ ہر چیز قانون و انصاف میں کیوں لانا چاہتے ہیں اجلاس میں سینیٹر عبدالقادر نے ججوںکی تعداد میںاضافے کے حوالے سے پیش کردہ بل پر بات کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کی آبادی بڑھی ہے، کرائم ریٹ بڑھا ہے، ججوں کی تعداد 1995 والی چل رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب تو کیس فکس کروانے کے لیے بھی سفارشیں کروائی جاتی ہیں، انہوں نے کہاکہ 26 ویں ترمیم میں جو بینچ بنائے ہیں اب ججوں کو اس میں بھی وقت دینا پڑے گا، انہوں نے کہاکہ عدالت عظمیٰ کے پاس کام ذیادہ ہے، ججوں کی تعداد بڑھانی چاہیے، انہوں نے کہاکہ سندھ، خیبرپختونخوا، پنجاب میں ججز کی سیٹیں خالی ہیں جس پر سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہاکہ عدالت عظمیٰ میں چند ماہ پہلے کتنی سیٹیں خالی تھیں اسکی بھی ایک وجہ تھی، جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ تعداد بڑھاکراپنی مرضی کے ججزکو عدالت عظمیٰ میںلایا جارہا ہے،25 اکتوبرکے بعد اب ججزبہترین اندازسے کام کررہے ہیں، تعداد بڑھانے کی ضرورت نہیں۔نئے چیف جسٹس سب کی پسند سے آئے ہیں، ان کو دو تین ماہ دینے چاہییں، یہ سارا میلہ نئے چیف جسٹس کو لانے کے لیے ہی تھا۔سینیٹر حامد خان نے کہاکہ انصاف کی فراہمی میں اگر صرف سیٹیں ہی مسئلہ ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ تعداد بڑھا دیں، سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہاکہ پچھلے ہفتے کی کاز لسٹ دیکھیں تو 12 سے زیادہ کیسز نہیں لگتے تھے، اب 30، 30 مقدمات لگتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ پہلے بھی کیپیسٹی پوری تھی جان بوجھ کر مقدمات لٹکائے گئے ۔انہوں نے کہاکہ سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر عدالت عظمیٰ خود ہے، ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو ججز کی ضرورت ہے کہ نہیں۔ انہوں نے کہاکہ عدالت عظمیٰ کو خط لکھ کر پوچھ لیں کہ وہاں ججز کی ضرورت تھی یا نہیں ہے۔پی ٹی آئی رہنما سینیٹر حامد خان نے کہاکہ ججز کی تعداد بڑھانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اگر ججز کی تعداد بڑھانی ہے تو ہائیکورٹ میں بڑھائیں وہاں ضرورت ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ انگلینڈ میں 12 ججز ہیں، بنگلہ دیش میں 54 ججز ہیں۔حامد خان کا کہنا تھاکہ ہمیں اس طرح قانون سازی پراختلاف ہے، ججز تعیناتی کا ایسا طریقہ کارعدلیہ کی آزادی پرحملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ 26 ویں ترمیم سے ہم نے عدلیہ کو بہت سخت نقصان پہنچایا ہے جب کسی ملک کونقصان پہنچانا چاہتے ہیں توججز کی تعداد بڑھائی جاتی ہے کیوں کہ مرضی کے فیصلے نہیں آرہے ہوتے۔سینیٹر حامد خان نے کہا کہ ہم ایک انتہائی غریب ملک ہیں، ہمیں ججز پر بہت خرچ کرنا پڑتا ہے، سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ کامن سینس ہے کہ جب کام بڑھے بندے بڑھا لیں۔ سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ سپریم کورٹ ججز کو کم از کم 21 لازمی کرنا چاہیے ،اگر اخبار بتا سکتا ہے کہ مقدمات کی تعداد 60 ہزار ہیں تو آپ کیوں نہیںبتاسکتے ہیں ، چیئرمین کمیٹی نے سیکرٹری قانون سے استفسار کیاکہ آپکو انفارمیشن کے لیے کتنا وقت چاہیے،جس پر سیکرٹری قانون نے کہاکہ ہمیں کم سے کم بھی تین ہفتے کا وقت دے دیں، اجلاس میں طویل بحث کے بعد کمیٹی نے عدالت عظمیٰ میں ججز کی تعداد 25 کرنے کی منظوری دے دی، 25 ججز میں ایک چیف جسٹس اور 24 ججز شامل ہوں گے۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے سینیٹر حامد خان اور جے یوآئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ججوں کی تعداد بڑھانے کی مخالفت کردی۔