جبری نس بندی انسانیت کے خلاف جرم ہے، اقوامِ متحدہ

128

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ کسی بھی مرد یا عورت کی جبری نس بندی ہر اعتبار سے ایک بنیادی حق کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ عالمی ادارے نے یہ بات 1990 کے عشرے کے دوران جنوبی امریکا کے ملک پیرو میں 3 لاکھ سے زائد خواتین کی جبری نس بندی کے حوالے سے کہی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی ایک کمیٹی نے پیرو کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ تمام متاثرہ خواتین کو ہرجانہ ادارے اور یہ کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں کمیٹی کی رولنگ انسانیت کے خلاف جرم سے متعلق فردِ جرم سمجھی جائے گی۔

خواتین کی جبری نس بندی کی مہم پیرو کے اس وقت کے صدر البرٹو فیوجیموری کے حکم پر چلائی گئی تھی۔ البرٹو کا اقتدار 10 سال رہا۔ اس نے 2000 میں اقتدار چھوڑا۔

خواتین سے امتیازی سلوک کے خاتمے کا مینڈیٹ رکھنے والی اقوامِ متحدہ کی 23 رکنی کمیٹی نے جبری نس بندی کا شکار ہونے والی پانچ خواتین کی مشترکہ شکایت کی بنیاد پر تحقیقات کے بعد رولنگ دی۔ ان خواتین نے اپنی باضابطہ شکایت میں بتایا تھا کہ جبری نس بندی کے نتیجے میں اُنہیں شدید جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔

کمیٹی کے ماہرین نے کہا ہے کہ پیرو کی حکومت متعلقہ شکایات پر جامع تحقیقات کرانے میں ناکام رہی اور اب تک کسی بھی متاثرہ خاتون کو ہرجانہ بھی ادا نہیں کیا گیا۔ حکومت کو ایک ایسا ادارہ قائم کرنا چاہیے جو جبری نس بندی کی مہم کا شکار ہونے والی ہر خاتون کو ہرجانہ ادا کرنے کا پابند ہو۔

البرٹو فیوجیموری کے عہدِ صدارت میں 1996 سے 2000 کے دوران 2 لاکھ 70 ہزار خواتین اور 22 ہزار مردوں کی نس بندی کی گئی تھی۔