امریکا کے سابق صدر اور ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا میں آباد ہندوؤں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے بنگلا دیش میں ہندوؤں پر نام نہاد مظالم کا سوال اٹھایا ہے۔
دیوالی کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں چراغ جلانے کے بعد ٹرمپ نے مختصر خطاب میں کہا کہ بنگلا دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد کی صورتِ حال میں ہندوؤں کو شدید امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس حوالے سے عالمی برادری کو متوجہ ہوکر کچھ کرنا چاہیے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکا کی ترقی میں جن بیرونی کمیونٹیز نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اُن میں ہندو نمایاں ہیں۔ ہندوؤں نے ہر شعبے میں ںمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ عام امریکی کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اِس ملک کے لیے ہندو کتنے سُودمند ثابت ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ تارکینِ وطن کے حوالے سے انتہائی متعصب سوچ رکھتے ہیں اور بارہا کہہ چکے ہیں کہ دوبارہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں تارکینِ وطن کو قبول نہ کرنے کی پالیسی اپنائیں گے۔ انہوں نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو لتاڑنے کے ساتھ ساتھ قانونی طور پر امریکا میں مقیم تارکینِ وطن کو بھی امریکا کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ قرار دینے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
امریکیوں نے یہ تماشا بھی دیکھا ہے کہ ووٹ بٹورنے کے لیے ٹرمپ نے اپنی ہی سوچ کے خلاف جاکر ہندوؤں اور دیگر مذہبی کمیونٹیز سے رابطے بڑھائے ہیں اور ان رابطوں میں چاپلوسی نمایاں رہی ہے۔ مسلمانوں کے معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کبھی جھکاؤ نہیں دکھایا اور اب بھی وہ اینٹی مسلم سوچ ہی رکھتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی سطح کے لیدرز کا مذہبی کمیونتیز کے معاملے میں انتہائی جانب دارانہ رویہ امریکی معاشرے میں انڈر کرنٹ کے طور پر پائی جانے والی تقسیم کو نمایاں کرسکتا ہے اور یوں ملک کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ ووٹ بینک کی سیاست کے پرچم تلے ہندوؤں کی چاپلوسی اور بنگلا دیش میں ہندوؤں سے امتیازی سلوک کے معاملے کو اُچھالنا امریکی معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔