جنت کا راستہ

62

ایک استفہامِ انکاری کے ذریعے اللہ تعالیٰ دعوتِ حق‘ فتح و شکست اور عمل اور جزا کے بارے میں سنت اللہ کو بیان فرماتا اور اس سلسلے میں اہل ایمان کے تصورات کی تصحیح کرتا ہے۔ وہ واضح فرماتا ہے کہ جنت کاراستہ مصائب و شدائد سے ڈھکا ہوا ہے اور راہِ حق کے مصائب وشدائد پر صبر اختیار کرنا اِس راہ کا توشہ ہے‘ نہ کہ آرزوئیں اور تمنائیں جو مصائب و شدائد اور تمحیص کے عمل کے موقع پر ٹھہر نہ سکیں:
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ تم جنت میں یوں ہی پہنچ جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے اْن لوگوں کو دیکھا ہی نہیں تھا‘ جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا… اور اْسے دیکھنا تھا کہ کون لوگ (ہر حال میں) ثابت قدم رہنے والے ہیں‘ اور تم موت کی… قبل اِس کے کہ اْس سے دوچار ہو… تمنا کر رہے تھے تو اب تو تم نے اْسے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا‘‘۔ (آل عمران: 142-143)
استفہام انکاری کے صیغے سے مقصود فکر ونظر کی غلطی پر شدت کے ساتھ تنبیہ کرنا ہے۔ فکر ونظر کی یہ غلطی کہ انسان زبان سے ’’اسلام لایا‘‘ کے الفاظ دْہرا دے اور سمجھے کہ اب میں موت کے لیے تیار ہوں اور محض اِن الفاظ کی ادایگی سے وہ ایمان کی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے اور جنت اور اللہ کی رضا تک پہنچنے کا اہل ہو جائے گا۔ نہیں‘ عملی تجربے اور عملی جہاد کی ضرورت ہے۔ جہاد کرنے اور مصائب سے دوچار ہونے اور پھر جہاد کی تکالیف اور مصائب و آلام سے دوچار ہونے پر صبر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

قرآنِ مجید کے یہ الفاظ بہت معنی خیز ہیں: ’’حالانکہ ابھی اللہ نے اْن لوگوں کو دیکھا ہی نہیں تھا جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا‘‘ (آل عمران:142) اور ’’اور اْسے دیکھنا تھا کہ کون لوگ (ہر حال میں) ثابت قدم رہنے والے ہیں‘‘ (آل عمران: 142)، یعنی اتنی بات کافی نہیں ہے کہ اہل ایمان جہاد کریں‘ دعوتِ حق کی تکالیف پر صبر بھی ضروری ہے۔ مسلسل‘ مستمر اور متنوع تکالیف پر… جو میدان کے جہاد تک محدود نہیں ہیں۔ صبر! بسا اوقات دعوتِ حق کی تکالیف سے… جن میں صبر مطلوب ہے اور جن سے ایمان کا امتحان ہوتا ہے… میدان کا جہاد نسبتاً ہلکی تکلیف کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ تو روزانہ مشقتوں کو جھیلنے کا سلسلہ ہے‘ جو ختم نہیں ہوتا۔ پھر ایمان کے اْفق پر استقامت کی مشقت ہے۔ فکر وعمل اور زندگی کے رویے میں ایمان کے مقتضیات پر قائم رہنا ہے‘ اور اِسی دوران اپنی ذات اور دوسرے لوگوں کے سلسلے میں… جن سے مومن کو روزانہ کی زندگی میں سابقہ پیش آتا ہے… انسانی کمزوری پر صبر۔ اْن اوقات میں صبر‘ جب کہ وہ غالب و سربلند ہوجاتا ہے اور ایک فاتح کی طرح اپنا زور دکھاتا ہے۔ راہِ حق کی درازی و دشواری اور موانع کی کثرت پر صبر۔ جدوجہد‘ کرب و بلا اور جنگ کی زحمتوں کے مقابلے میں راحت و آرام کی طرف رغبت اور اْس کے لیے نفس کے اشتیاق کے مقابلے میں صبر۔ اِسی طرح اور بہت سے امور کے مقابلے میں… جن میں میدان کا جہاد صرف ایک امر ہے… صبر‘ اور یہ صبر اْس راستے پر چلنے کے دوران ہے‘ جو مصائب و شدائد سے ڈھکا ہوا ہے‘ یعنی جنت کا راستہ۔ وہ جنت جو آرزووں اور لفظی جمع خرچ سے حاصل نہیں ہوتی! (جہاد اور صبر سے حاصل ہوتی ہے)۔

’’اور تم موت کی… قبل اس کے کہ اْس سے دوچار ہو… تمنا کر رہے تھے‘ تو اب تو تم نے اْسے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا‘‘۔ (آل عمران: 143)
اِس طرح قرآن انھیں ایک بار پھر موت کے… جس سے اْن کا سامنا میدانِ جنگ میں ہوا تھا… آمنے سامنے لاکر کھڑا کر دیتا ہے۔ اِس سے قبل وہ موت کی تمنا کر رہے تھے۔ یہ اس لیے کہ وہ کلمے کے وزن کے… جسے زبان ادا کرتی ہے اور عملی حقیقت کے وزن کے… جو آنکھوں سے نظر آتی ہے… مابین موازنہ کریں۔ یہ موازنہ انھیں بتائے گا کہ جو بات بھی‘ اْن کی زبان سے نکلے‘ اْس کا خیال رکھیں‘ پھر اْس کے عملی اثرات کا‘ جو ان کے نفوس پر پڑیں‘ عملی حقیقت کی روشنی میں… جس سے وہ عملاً دوچار ہوں… وزن کریں۔ یہ موازنہ انھیں بتائے گا کہ منہ سے نکل کر اْڑ جانے والے الفاظ اور اْونچی اْونچی آرزوئیں انھیں جنت تک پہنچانے والی نہیں ہیں۔ جنت تو حاصل ہوگی کلمے کو قائم کرنے‘ آرزووں کو عمل کے پیکر میں ڈھالنے‘ حقیقتاً جہاد کرنے اور مصائب و آلام پر صبر کرنے سے اور یہ اِس حد تک کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی دنیا میں عملاً اِن سب امور کو واقع ہوتا دیکھ لے۔