سابق منتظم صوبہ سندھ جمعیت طلبہ عربیہ
گزشتہ ادوار میں پنجاب کے نظام تعلیم، معیار تعلیم اور شرح تعلیم کو دوسرے صوبوں کی نسبت بہتر تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن نہ جانے پنجاب کے تعلیمی نظام کو کسی کی نظر لگ گئی یا مسلسل تجربات کی بھٹی نے پنجاب کے تعلیمی نظام کو زبوں حالی کا شکار کر دیا ہے۔ چند وجوہات درج ذیل ہیں۔
1۔ حکومت اور اساتذہ کا ٹکراؤ : نگران حکومت کے دور سے اسکولوں کو پرائیویٹ شعبوں کے حوالے کرنے، اساتذہ کو جبری ریٹائر کرنے، پنشن میں کٹوتی کے حوالے سے اقدامات کا آغاز کیا گیا جس کا اساتذہ برادری سے تاریخ ساز ردعمل دیکھنے کو ملا۔ پنجاب کے اسکولوں کی تالا بندی، تعلیم اور کلاسوں کے بائیکاٹ اور سڑکوں پر احتجاج نے جب طول پکڑا تو محترمہ مریم نواز صاحبہ نے سمجھداری کہیں یا چالبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایپکا اور استاتذہ یونینز سے ملاقات کی اور مطالبات پورے ہونے کا عندیہ دیا۔ جس پر احتجاج ختم کر کے تعلیم و تدریس کا کام دوبارہ شروع کر دیا گیا۔ مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے کہ مصداق مریم نواز صاحبہ کا وعدہ بھی اساتذہ کے لیے لولی پاپ ثابت ہوا جس پر اساتذہ تنظیمیں دوبارہ احتجاج کے لیے پر تول رہی ہیں۔
2۔ پرائیویٹائزیشن: نگران حکومت کے فیصلے کو جاری رکھتے ہوئے بہت محتسب حکومت پنجاب نے پرائیویٹائزیشن کہ عمل کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا جس پر پہلے مرحلے میں جلد بازی کرتے ہوئے پنجاب کے 14 ہزار پرائمری اسکول مختلف این جی اوز کے حوالے کرنے کا سوچا گیا۔ ان این جی اوز نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے اسکول لینے کا عندیہ دیا اور بعد میں مقامی مسائل اور انتظامی سہولتوں کو دیکھتے ہوئے سرد مہری دکھائی جس کی بدولت کئی اسکول بیچ میں لٹکے رہے۔ عملہ دوسرے اسکولوں میں منتقل ہو گیا۔ اور اسکول ایک یا دو استادوں کے سپرد ہے جب تک کہ این جی اوز کے حوالے نہیں کر دیا جاتا۔ اسی کشمکش میں کئی ہفتے گزر گئے۔ این جی اوز کا تماشا بھی عجیب ہے جن اسکولوں میں ایم اے، ایم ایڈ، بی اے، بی ایڈ، بی ایس گریجویٹس اساتذہ سے طلبہ استفادہ نہیں کر سکے نہ نصاب سمجھ سکے۔ وہاں میٹرک پاس بچوں اور بچیوں سے دس ہزار تنخواہ کے عوض نصاب پڑھایا پائیں گے۔
3۔ نصابی کتب کی عدم فراہمی: تعلیمی سال کے آغاز میں بھی اسکولوں اور طلبہ کو بتایا گیا کہ نگران حکومت نے نئی کتابیں چھاپنے کا معاہدہ نہیں کیا تھا جس کی بدولت طلبہ کے لیے نئی کتابوں کی فراہمی مشکل ہے لہٰذا سابقہ طلبہ سے پرانی کتابیں جمع کر کے کلاس کا آغاز کر دیا جائے جلد ہی کتب کی کمی کو پورا کر دیا جائے گا لیکن نصف تعلیمی سال آنے کو ہے اور اب تک طلبہ کی کثیر تعداد ہمدرد غزالی یا پھر پرانی کتابوں پر گزارا کرنے پر مجبور ہے جو کہ ایک تشویش ناک اور قابل افسوس بات ہے۔
4۔ ہفتہ وار 2 چھٹیاں: کتب کی عدم دستیابی اور نصاب نامکمل ہونے کا دھڑکا لگا ہی تھا کہ سابق وزیر تعلیم نے اساتذہ کو ریلیکس کرنے کے بہانے ہفتہ وار دو چھٹیوں کا اعلان کر دیا۔ جو کہ پنجاب کے نظام تعلیم کے لیے ایٹم بم ثابت ہوا۔
ایک تو سمسٹر سسٹم میں ہر تین ماہ بعد ایک ہفتہ امتحانات میں لگ جاتے ہیں۔ پھر مقامی تعطیلات الگ۔ اساتذہ کی ماہانہ دو چھٹیاں۔ طلبہ کی اپنی چھٹیاں اور ہفتہ وار دو چھٹیوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔
عجیب بات یہ ہے کہ اسی دوران پرائیویٹ اسکول کھلے ہوں گے۔؟ پرائیویٹ اسکول پہلے ہی اپنے شو شپٹے، نئے حربوں اور خفیہ ٹیکنیکس کی وجہ سے سرکاری اسکولوں سے کافی آگے ہیں۔ مزید ان کے طلبہ کو اسکول جاتے، نصاب مکمل کرتے اور پڑھتے دیکھ کر سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین بے یقینی کا شکار ہوں گے اور ان کا اعتماد سرکاری اسکولوں سے اُٹھ جائے گا۔ جس کا فائدہ لا محالہ پرائیویٹ اسکولوں کو ہی ہوگا۔ اور یہی اصل گیم ہے۔
5۔ ریشنالائزیشن کی تلوار: پنجاب کے اسکول گزشتہ دور میں پی ٹی آئی کی نااہلی اور حکومتی عدم استحکام کی وجہ سے پانچ سال میں ہزاروں اساتذہ کی کمی کا شکار تھے۔ بجائے اس کمی کو پورا کرنے کے اور خالی اسامیاں پر کرنے کے ایک نیا شوشا چھوڑا گیا کہ اسکولوں میں سرپلس اساتذہ موجود ہیں لہٰذا ان کو دوسرے اسکولوں میں منتقل کیا جائے گا، جس پر بغیر اساتذہ کو چوائس دیے دور دراز اسکولوں میں زبردستی منتقل کر دیا گیا۔ منتقل ہونے والے اکثر اساتذہ موسٹ سینئر اور ریٹائر منٹ کے قریب ہیں۔ بجائے ان کے لیے آسانی پیدا کرنے کے ان کو ملازمت کے آخری ایام میں مشکلات کا شکار کر دیا گیا ہے۔
6۔ T.N.A (ٹیچر نیڈ اسسمنٹ) کا جن: نہلے پہ دہلہ کے مصداق اساتذہ جو پہلے ہی خدشات، تحفظات کا شکار تھے۔ اور دوبارہ ہڑتال کا سوچ رہے تھے حکومت کی جلد بازی نے انہیں اس اچانک ٹیسٹ کا اعلان کر کے یہ موقع بھی فراہم کر دیا۔
اساتذہ کو مزید ڈرانے، پریشان کرنے، ملازمت چھوڑنے پہ مجبور کرنے کے لیے یک جنبش قلم حکم ہوا کہ تمام ٹیچرز کا آن لائن ٹیسٹ ہوگا۔ جس میں سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے گا۔ 45 منٹ میں 45 سوالات۔ مکمل انگلش زبان میں۔ عربی، قرآن، اردو والے استاد کو بھی انگلش، میتھ، سائنس، جنرل نالج کے سوالات انگلش لینگویج میں حل کرنا ہوں گے۔
ٹیسٹ کے بعد ایک جیوری کے سامنے انٹرویو دینا ہوگا جو پاس فیل یا ٹیچر کی تعلیمی قابلیت کا فیصلہ کرے گی۔ اس سارے پراسس میں یہ مخفی رکھا گیا کہ اس کے پاس یا فیل کی بنیاد پہ ٹیچر کو بطور ستائش یا سزاء بیرون ملک ٹرینگ کے لیے بھیجا جائے گا؟ یا نوکری سے بے دخل کر دیا جائے گا؟۔ اساتذہ برادری جو پہلے ہی بہت سے معاملات میں پنجاب حکومت سے نالاں اور تحفظات کا شکار تھی انہوں نے اس کو اپنی نوکری سے بے دخلی کا مسئلہ سمجھ لیا ہے۔ ان کو تحفظات ہیں کہ: 1۔ ٹیسٹ اور ٹرینگ تو ہم پہلے بھی کرتے رہے ہیں مگر وہ محکمانہ سطح پہ منعقد ہوتا تھا اور ہر ٹیچر کے مضمون کا خیال کیا جا تا تھا تو اب ایسا کیوں نہیں؟ 2۔ آن لائن پیپر حل کرنا، پھر تمام سوالات سب اساتذہ کے لیے انگلش لینگویج میں ہونا بھی مسئلہ ہے۔؟ 3۔ وزیر موصوف کی مسلسل ایف آئی آر کی دھمکیاں، ٹویٹس اور بیانات ہتک آمیز انداز پر مشتمل ہوتے ہیں۔ لہٰذا گزشتہ کئی دنوں سے حکومت کے ٹیسٹ سینٹرز بنانے کے باوجود ایک بھی استاد ٹیسٹ دینے سینٹر تشریف نہیں لایا۔ جس کو وزیر تعلیم نے بجائے مناسب انداز میں حل کرنے اور اساتذہ یونین سے رابطہ کرنے کے۔ اپنی آنا کا مسئلہ بنا لیا ہے اور وہ پے در پے اساتذہ کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ رویہ مناسب نہیں ہے اس سے پنجاب کا نظام تعلیم جو کہ پہلے ہی درہم برہم ہے مزید افراتفری اور عدم استحکام کا شکار ہوگا۔ حکومت کو اپنے اساتذہ کے خدشات کو دور کرنا چاہیے۔ ان کی مشاورت سے ٹیسٹ اور ٹریننگ کا انعقاد کرنا چاہیے۔ سینئر اساتذہ کے لیے اگر اس سلسلے میں مشکلات ہیں تو اسے بجائے انا کا مسئلہ بنانے کے پیش نظر رکھنا چاہیے۔ کیونکہ پوری دنیا کے ممالک اپنے سینئر ملازمین اور خاص طور پر سینئر اساتذہ کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ بالفرض اگر آپ اساتذہ کی کچھ تعداد کو نکالنا بھی چاہتے ہیں تو ان سے مناسب انداز میں ڈیل کریں۔ یہی حکومت، استاد اور نظام تعلیم کے لیے بہتر عمل ہوگا۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ مریم نواز صاحبہ ایک منجھے ہوئے سیاسی خاندان سے تعلق ہونے کے باوجود اس صورتحال پر توجہ نہ دے کر تعلیمی نظام کی تباہی کا تماشا دیکھ رہی ہیں، یا پھر وہ نادیدہ آئی ایم ایف کی قوتوں کے سامنے بے بس ہیں۔ حالانکہ گزشتہ ادوار میں جب وہ وزیراعلیٰ نہیں تھی تو تعلیمی نظام اور تعلیمی نظام کی تباہی کے بارے میں تعلیمی مسائل اور اساتذہ کی پریشانیوں کے تذکرے نہ صرف اپنی تقریروں میں کیا کرتی تھی بلکہ ان کو حل کرنے کا بھی یقین دلاتی رہی ہیں۔ میری ان سے گزارش ہے کہ خدارا پنجاب کی نسل کو تباہی سے بچائیں اور اسکول اور اساتذہ کو بے یقینی اور عدم تحفظ کے احساس سے آزاد کریں کیونکہ:
سکون سے پڑھائے گا استاد… تو ہی آگے بڑھے گا پنجاب