آئین میں ایک ترمیم عوام کے لیے

305

اے ابن آدم بہت محنت و مزدوری کے بعد ایک بار پھر 26 ویں آئینی ترمیم ہوگئی اس ترمیم پر مولانا فضل الرحمن نے سب سے پہلے اعتراض کیا اور میڈیا پر چھا گئے، اُن کا سیاسی قد اور بلند ہوگیا۔ تحریک انصاف والے ان سے ملنے آئے پھر بلاول زرداری نے بھی ایک بڑا سیاسی کردار ادا کیا۔ بھٹو کے جیالے خوشی سے سرشار نظر آرہے تھے، ان کے نوجوان لیڈر میں سیاسی بصیرت جو اُجاگر ہورہی ہے کیونکہ وہ بلاول زرداری کو آنے والے وزیراعظم کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں اس مرتبہ زرداری صاحب نے بلاول کو ہر معاملے میں آگے رکھا جس وقت اسمبلی سے یہ بل پاس ہوا تو بلاول نے کہا اس کا سہرا مولانا فضل الرحمن کو جاتا ہے جبکہ زرداری صاحب تو بلاول کے سر پر سہرا دیکھنے کی تمنا کررہے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ اس ترمیم سے عوام کو فوری اور جلد انصاف فراہم کیا جائے گا۔ کاش ایسا ہو مگر ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔ حکومت آج بھی عمران خان سے خوفزدہ نظر آتی ہے۔ وزیر دفاع نے فرمایا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے 8 جج عمران خان کو واپس لانا چاہتے تھے، 8 فروری کو عوام نے بھی عمران خان کے حق میں فیصلہ دے دیا مگر حق دار کو اس کا حق نہیں ملا اور فارم 47 والوں کی حکومت بنادی گئی۔

پاکستان کا پہلا آئین ایک بیوروکریٹ نے 1956ء میں بنایا تھا پھر ایوب خان کے دور حکومت میں ایک آئین بنا، یہ بات 1962ء کی ہے جس میں یہ جملہ تحریر تھا کہ میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان قوم کو ایک آئین دے رہا ہوں مگر یہ آئین ایک جھٹکا بھی برداشت نہیں کرسکا۔ 1973ء کا آئین بہت سخت جان ہے آج اس میں 26 واں پیوند لگ چکا ہے، ہر حاکم وقت نے اپنی من مانی اور مراعات یافتہ طبقے کی خوشی کے لیے ہر دور میں آئین میں پیوند کاری کی۔ 1973ء کا آئین ذوالفقار علی بھٹو، حفیظ پیرزادہ، محمود علی قصوری، خان عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، میر غوث بخش بزنجو، مولانا شاہ احمد نورانی، سردار شیرباز خان مزاری و دیگر کا بنایا ہوا آئین ہے۔ ضیا الحق نے آئین کو منسوخ کرکے 11 سال حکومت کی، پرویز مشرف نے بھی برملا یہ جملہ کہا تھا آئین کوئی قرآن تو نہیں پھر اس آئین نے اُن کو پھانسی کی سزا سنائی مگر وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ 1973ء کا آئین کسی جادو نگری سے کم نہیں ہے جس نے بھی آئین کا غلط استعمال کیا اس کا حشر قوم کے سامنے ہے۔ برطانیہ میں کیا کوئی آئین ہے نہیں بلکہ وہاں کا نظام رسومات پر چلتا ہے آج تک چل رہا ہے۔ قانون کی بالادستی جس ملک میں ہوگی وہ ملک ترقی کرے گا۔ ہم نے قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیا تھا ایسا لگتا تھا کہ قانون صرف امیر کے لیے ہے کسی بڑے لیڈر کا کیس ہوتا تو راتوں کو عدالتیں لگا کر فیصلے کیے گئے، چیف جسٹس حضرات سیاسی لیڈر بن گئے تھے، افتخار محمد چودھری صاحب کی تحریک تو عوام کو آج بھی یاد ہے۔ خیر آئین پاکستان میں طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہے مگر افسوس کہ اس آئین کا ثمر 1973ء سے لے کر آج تک عوام کو نہیں ملا۔ عوام آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ طاقتور غریب کا خون چوس رہا ہے، عوام بے حال ہوچکے ہیں۔

ابن آدم سوال کرتا ہے کہ کوئی ماہر قانون یہ بتا سکتا ہے کہ آئین کی کس شق میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ بنیادی حقوق کا باب اور شخصی آزادیوں سے متعلق حصے کو بنیادی ڈھانچے کی حیثیت حاصل ہے؟ کیا پاکستان کے دستور میں کہیں یہ قدغن لگائی گئی ہے کہ پارلیمنٹ ان معاملات پر آئین سازی نہیں کرسکتی؟ تعجب ہوتا ہے نامور وکیل اور ماہرین آئین و قانون دستور کے آرٹیکل 239 کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 239 کی ذیلی شق 5 میں بہت واضح انداز میں لکھا ہے کہ کسی بھی آئینی ترمیم کو کسی بھی بنیاد پر کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اسی آرٹیکل کی ذیلی شق 6 میں واضح کیا گیا ہے کہ آئین سازی کے حوالے سے پارلیمنٹ کے اختیارات لامحدود ہیں۔ دستور کی کس شق میں ترمیم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اختیارات کی کوئی حد نہیں، دستور کی کسی شق کے بعد کیا بنیادی آئینی ڈھانچے کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے۔ آئین سازوں نے اپنی غرض و غایت بہت واضح، سادہ اور آسان الفاظ میں بیان کردی ہے، اب اگر کوئی اپیل اس 26 ویں ترمیم پر عدالت میں آئے گی تو اس کو داخل دفتر نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اپوزیشن شور کررہی ہے کہ وہ اس ترمیم کو چیلنج کرے گی، اس مرتبہ فارم 47 کی جبری حکومت نے کام تو مضبوط کیا ہے مگر افسوس کہ آئین پاکستان میں پہلے سے درج عوامی بنیادی حقوق کب عوام کو دے گی۔ پانی، بجلی، گیس، صحت، تعلیم کیا یہ عوام کو میسر ہیں، کیا پاکستان کے آئین میں کسی جگہ کوٹا سسٹم کا ذکر ہے، اگر ہوتا تو پورے ملک میں ہونا چاہیے تھا مگر افسوس کہ یہ کوٹا سسٹم صرف کراچی سمیت پورے سندھ میں آج بھی موجود ہے۔ الطاف حسین کو کراچی والوں نے جو عزت دی اس کی ایک وجہ تھی سندھ سے کوٹا سسٹم کا خاتمہ، مہاجر صوبہ مگر متحدہ بنانے کے بعد مہاجر صوبے کا نعرہ بھی دم توڑ گیا۔ جماعت اسلامی نے بھی ہمیشہ کوٹا سسٹم کو ختم کرنے کی بات کی عوامی مسائل کے حل کی بات کی۔ مہاجر اتحاد تحریک کے سربراہ آج بھی الگ صوبے کی بات کرتے ہیں۔ آفاق احمد بھی کوٹا سسٹم کے خاتمے اور مہاجر صوبے کی بات کی کراچی گرینڈ الائنس کے چیئرمین اسلم خان بھی کوٹا سسٹم کے خاتمے کی باتیں کرتے ہیں مگر وہ الگ صوبے کا نہیں بلکہ الگ یونٹ بنانے کی بات کرتے ہیں جس پر وفاق کا کنٹرول ہو مگر افسوس کہ جس سیاسی جماعت نے کوٹا سسٹم کو ختم کرنے کا نعرہ لگایا تھا اس نے آج تک اس اہم مسئلے پر کوئی قرارداد پیش نہیں کی جبکہ وفاق اور صوبے میں متحدہ حکومت کی اتحادی جماعت ہے، بجلی کا مسئلہ ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے، عوام کیپسٹی چارجز اور ٹیکس پر ٹیکس دے کر ہمت ہار چکے ہیں۔ کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے بل میں 1000 روپے فکس چارجز لگادیے ہیں، ایک بار پھر کے الیکٹرک نے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر 3 روپے فی یونٹ اضافہ کیا جس کی نیپرا نے اجازت دے دی ہے۔ کراچی کے امیر منعم ظفر بھائی نے اس اضافے کو عوام پر ظلم کے مترادف ہونے کا مطالبہ کردیا اور ایک اہم مطالبہ کیا کہ کے الیکٹرک کو ڈالر کی بنیاد پر 7 سالہ جنریشن ٹیرف کی منظوری کو مسترد کرتے ہیں۔ کے الیکٹرک کا جنریشن لائسنس منسوخ کیا جائے اور کراچی کو این ٹی ڈی سی کے ذریعے سستی بجلی فراہم کی جائے۔ نیپرا کے الیکٹرک کے لیے ربر اسٹمپ کا کام کررہا ہے۔ موجودہ حکومت سمیت ماضی کی ہر حکومت اور تمام حکمران پارٹیوں نے کے الیکٹرک کی حمایت اور سرپرستی کی ہے، خالی سرپرستی ہی نہیں کی بلکہ سب سے اپنے حصہ وصول کیا ہے۔ ابھی حال ہی میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے بھی ماہانہ بلوں میں چوری سے اضافہ کردیا ہے، سوئی گیس والوں نے تو عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، اتنا بھاری اضافہ کیا ہے کہ عوام کے ہوش اُڑ گئے۔ پیپلز پارٹی آج بھی کراچی دشمنی پر اُتری ہوئی ہے، جماعت اسلامی کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیتی صرف اُن علاقوں میں جہاں ان کے یوسی ناظم ہیں بس اُن کو نوازہ جارہا ہے مگر سلام ہے جماعت اسلامی کے ناظمین اور نائب ناظمین کونسلرز پر کہ وہ قلیل فنڈز میں بھی اپنے علاقے کی خدمت میں شب و روز مصروف عمل ہیں۔ حکمرانوں نے 26 ویں آئینی ترمیم تو کردی، کیا اب عوام کو فوری انصاف ملے گا، کیا عوام خوشحال ہوگی، کیا مہنگائی کم ہوگی، کیا کوٹہ سسٹم ختم ہوگا، کیا صوبوں کو اُس کا حق ملے گا، کیا آئی ایم ایف سے نجات ملے گی، پھر تو یہ ترمیم عوام کو قبول ہے۔