ترمیمی بل یا انصاف کے جنازے پر اقتدار کاجشن

320

کہتے ہیں کہ آئین قوموں کا مقدر سنوارتا ہے، ترمیمی بل کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر آئین میں ترمیم کر کے عوام کو سہولت فراہم کی جائے مگر پاکستان میں 26 ویں آئینی ترمیم کا جو شورو غوغا ہے، وہ ایسے ہی ہے جیسے کسی بھوکے کو خالی تھالی تھما دی جائے اور کہا جائے کہ خوش رہو، ہم تمہارے لیے بڑی تبدیلی لا رہے ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ حکمرانوں کو لگتا ہے جیسے ملک کے تمام مسائل جادو کی چھڑی سے حل ہو چکے ہیں۔ تعلیم کا معیار آسمان کو چھو رہا ہے، صحت کی سہولتیں مریخ سے بھی آگے جا چکی ہیں، اور مہنگائی کا جن اب بوتل میں بند ہو چکا ہے، شاید عوام کو خوابِ خرگوش میں مبتلا کرنے کے لیے آئینی ترمیم ہی سب سے بڑا مشغلہ رہ گیا ہے، کوئی ان عقل کے اندھوں سے پوچھے کیا بیروزگاری کا حل آئینی ترمیم میں ہے؟ کیا پینے کے صاف پانی کا حصول آئینی ترمیم میں ہے؟ کیا ٹوٹی سڑکوں اور کھْلے گٹروں کا حل آئینی ترمیم میں ہے؟ کیا بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس کا حل آئینی ترمیم میں ہے؟ کیا گیس کی فراہمی آئینی ترمیم میں ہے؟ کیا لوگوں کی مال و عزت کی حفاظت کا حل آئینی ترمیم میں ہے؟، اب حالات یہ ہو چکے ہیں کہ کرپشن کرو، ترمیم لاو، اور سکون سے حکومت کرو، جب حکمرانوں کے کارنامے اور بدعنوانی کے قصے عوام میں گردش کرنے لگتے ہیں، تب اچانک ایک نئی آئینی ترمیم کی گھنٹی بجا دی جاتی ہے، یوں عوام مہنگائی، بیروزگاری اور ناانصافی کے سمندر میں غوطے کھا رہے ہوتے ہیں، اور حکمران ساحل پر بیٹھ کر آئین میں ترمیم کے ذریعے اپنی کشتی مضبوط بنا رہے ہوتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آئین ان کے لیے ایک حفاظتی کمبل ہے جسے ہر مشکل وقت میں اوڑھ لیا جاتا ہے، جب احتساب کا طوفان آئے یا معیشت ڈوبنے لگے یا عوام سڑکوں پر نکل آئیں، حکمران سب سے پہلے ترمیمی بل کا جادو چلاتے ہیں، اور پوری قوم کی توجہ اس طرف مرکوز کر دیتے ہیں، اور اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں، پھر اس ترمیمی بل کے ذریعے عدلیہ کے اختیارات کم کرتے ہیں، اور اداروں کے پر کاٹ کر یوں پیش کرتے ہیں جیسے یہ سب قوم کی بہتری کے لیے ہو رہا ہو، گزشتہ پچاس برسوں سے ہمارے ملک میں یہی ہو رہا ہے کہ ہر آنے والی حکومت کا سب سے بڑا ہدف یہی ہے کہ کوئی ادارہ ان کو احتساب کے شکنجے میں نہ لا سکے اور نہ ہی کسی ادارے کو اتنے اختیارات ہوں کہ وہ حاکم وقت کی گرفت کر سکے۔ چنانچہ ایسی ترامیم اس لیے لائی جاتی ہیں جو نہ صرف حکومتی اختیارات کو بڑھاتی ہیں بلکہ عوام کے لیے انصاف کی آخری امید، یعنی عدالتوں کو بھی بے دست و پا کر دیتی ہیں، کاش حکمرانوں کو یہ سمجھ میں آ جائے کہ آئینی ترمیم قوم کے مسائل کا حل نہیں بلکہ روٹی، روزگار اور انصاف کا حصول عوام کی اصل ضرورت ہے۔ لیکن جب اقتدار کا نشہ سر چڑھ جائے تو پھر عوام کی چیخیں بھی قہقہوں میں دب جاتی ہیں، یہی مردہ قوموں کی نشانی ہے جو فرقہ واریت میں بٹی ہوئی ہے اور حکمراں اس سے فائدہ اْٹھاتے ہیں، یہ صورتحال عوام کے لیے تماشے سے کم نہیں، سیاستدان ایک دوسرے پر آئینی موشگافیوں کے تیر چلاتے ہیں، اور بے بس عوام خاموش تماشائی بن کر ان کی شعلہ بیانی اور لفظی جنگ کو یوں دیکھتے ہیں جیسے اپنے دکھوں کا مذاق بنتے ہوئے دیکھ رہے ہوں، مسائل کا حل کہیں دور، اور اقتدار کا کھیل ہر منظر پر حاوی دکھائی دیتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ بل صرف ایک قانونی دستاویز نہیں بلکہ اقتدار کی چابی اور احتساب سے راہِ فرار کا ذریعہ ہے، اس ترمیم کے ذریعے وہ اپنے اختیارات کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، اداروں کو کمزور کرنا اور اپنی کرپشن اور بدعنوانیوں پر پردہ ڈالنا مقصود ہے، یہ بل عوام کے حقوق سے زیادہ حکمرانوں کے مفادات کا محافظ بن چکا ہے، گویا آئین کو اپنے فائدے کے لیے کاغذ کا کھلونا بنا لیا گیا ہو، تخت کے کھیل میں یہی ترمیم ان کے اقتدار کے دوام کی ضمانت ہے، آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اس صورتحال میں عوام کی ذمے داری کسی تماشائی کی نہیں، بلکہ بیدار اور خبردار نگہبان کی ہونی چاہیے، اگر قوم نے غفلت کی چادر اوڑھے رکھی، تو حکمران اپنے مفادات کی فصل کاٹتے رہیں گے اور آئین کو ذاتی خواہشات کے مطابق ڈھالتے رہیں گے، اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں شعور اور آگاہی کی مہم چلائیں، اس ترمیمی بل کے پس پردہ ارادوں کو سمجھیں، اور پر امن احتجاج کر کے حکمرانوں کو یہ احساس دلائیں کہ قوم نہ بے خبر ہے نہ خاموش، سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا درست استعمال کر کے عوامی شعور بیدار کریں جو ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے، ورنہ بکھری ہوئی قوم حکمرانوں کے لیے آسان شکار بن جاتی ہے، عوام کو ایک آواز اور ایک صف میں کھڑا ہونا ہوگا تاکہ ان کی بات محض صدا بہ صحرا نہ ہو بلکہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے، یاد رکھیں کہ بیدار قومیں ہی اپنی تقدیر لکھنے کا اختیار رکھتی ہیں، اگر عوام نے خوابِ غفلت سے جاگ کر حکمرانوں سے جواب طلبی کی، تو آئین کے ساتھ کھلواڑ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ یہی جمہوریت کی روح اور قوم کی نجات کا راز ہے۔