اور اب ججوں کی تعداد میں اضافے کا بل

216

ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت عوام کے سارے مسائل حل کرچکی ہے اور اب عوام کی فلاح اور ملک کی ترقی میں واحد رکاوٹ آئین پاکستان اور عدلیہ ہے، چنانچہ آئینی ترامیم کے ذریعہ عدلیہ کو پٹا ڈالنے کا کام جاری ہے، ابھی قوم سے چھبیسویں آئینی ترمیم ہضم نہیں ہوئی تھی کہ ستائیسویں ترمیم کا شوشا چھوڑ دیا گیا۔ ایک دن رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ستائیسویں ترمیم لارہے ہیں اور آئینی عدالت سے بھی بزعم خود بڑی، فوجی عدالتوں کے قیام کی بات کی اگلے دن حکومت کے اعلیٰ حلقوں کی جانب سے اس کی تکرار ہوئی، پھر اچانک پلٹا کھایا اور وزیر دفاع خواجہ اصف نے کہا کہ ستائیسویں ترمیم نہیں لارہے خبروں میں کوئی صداقت نہیں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑنے بھی کہا کہ یہ افواہ ہے، لیکن ایک ہی دن بعد یہ خبر آگئی کہ عدالت عظمیٰ میں ججوں کی تعداد میں اضافے کا بل قومی اسمبلی میں جمعہ کو پیش کیا جائے گا، پارلیمانی ذرائع کے مطابق عدالت عظمیٰ چیف جسٹس سمیت 23 ججوں پر مشتمل ہو گی، اس بل کے تحت عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 23 ہوجائے گی، ججوں کی تعداد میں اضافے کا بل حکومت کی جانب سے پیش کیا جائے گا، یہ بل نجی کارروائی کے دن بیرسٹر دانیال چودھری پہلے ہی پیش کرچکے ہیں، اس بل کو حکومت اون کرچکی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم پر بھی مشاورت جاری ہے، جلدی اس قدر ہے کہ بل کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی کے رواں اجلاس میں جمعہ تک توسیع کردی گئی، اب پیپلز پارٹی نے بھی جمہوری کھیل شروع کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قانون سازی میں جلد بازی نہ کی جائے۔ لیکن سارا عمل جاری ہے، عدالت عظمیٰ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے لیے ترمیمی بل 2024ء بطور منی بل لایا جائے گا۔ علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں ججوں کی تعداد تین سے بڑھا کر پانچ کرنے کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے، اب دو چار دن پیپلز پارٹی جلد بازی نہ کرنے کی بات کرے گی، اس کے بعد حسب معمول سینیٹ اور قومی اسمبلی سے یہ بل جلد بازی ہی میں منظور ہوجائے گا۔ اور جس سینیٹ اجلاس میں ہروقت کورم کی کمی ہوتی ہے اور قومی اسمبلی میں سرکاری ارکان وزرا وغیرہ سب غائب رہتے ہیں ایک سیٹی بجتے ہی سب حاضر ہوجاتے ہیں، پھر جھٹ پٹ ترمیم منظور ہوجاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم میں عدلیہ کے مسائل حل کرنے کے نام پر ساری تبدیلیاں کی گئیں تو اس وقت اتنی اہم بات کیوں یاد نہیں آئی کہ ججوں کی تعداد میں اضافہ بہت ضروری ہے عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے انصاف کا دائرہ بڑھانے کے بجائے ججوں کی گنتی بڑھائی جائے گی۔ لگتا تو یہ ہے کہ آئینی بنچ میں ججوں کو بھیجنے کے لیے بھی نفری بڑھانا ضروری تھی اس لیے بل پیش کروایا گیا تھا اب منظوری کرالی جائے گی۔ لیکن نئے چیف جسٹس کی آمد پر عدلیہ میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے، صرف 38 منٹ میں 30 کیسز کی سماعت ہوئی، یہ تیزی کیا ترمیم کی وجہ سے ہوئی ہے یا کارکردگی دکھانے کے لیے، اور اگر عدالت عظمیٰ میں 38 منٹ میں 30 کیسز کی سماعت ہوسکتی ہے، جو ہوئی ہے، تو پھر یہ پوچھنا پاکستانی عوام کا حق ہے کہ پھر اتنی تاخیر کیوں ہوتی رہی ہے اس کا مطلب ہے کہ عدالت تیز رفتار سماعت کر سکتی ہے تو اب تک کیوں تاخیر کی جاتی تھی، اور یہ کہ کیا ججوں کی تعداد 23 کرنے سے عوام کو انصاف کی فراہمی کی رفتار تیز ہوجائے گی۔ اس صورتحال پر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بجا تبصرہ کیا ہے کہ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ پڑھے، سمجھے اور دیکھے بغیر ترمیم پاس کرنے والے ججوں کا تقرر کریں گے، اور انہوں نے اس کا سبب بھی بتادیا کہ اس ملک میں الیکشن چوری ہورہے ہیں اس لیے ایسی ترامیم بھی آرہی ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ چھبیسویں ترمیم کے بہت خراب نتائج ہوں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے جو مولانا فضل الرحمن کو بھی اب یاد آئی کہ موجودہ حکومت کا مینڈیٹ مشتبہ ہے، شاہد خاقان کو تو پہلے ہی یہ پتا تھا لیکن مولانا کو چھبیسویں ترمیم کے بعد احساس ہوا کہ حکومت کا مینڈیٹ مشتبہ ہے، آنے والے دنوں میں چوری کے مینڈیٹ اور مشتبہ مینڈیٹ والوں سے کرائی گئی ترامیم اور قانون سازی اپنا رنگ دکھائے گی، ابھی اداروں کے درمیان کھینچا تانی اور لڑائی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ ان ترامیم سے دراڑ مزید گہری ہوئی ہے۔