مسلم حکمراں صرف باعث تذلیل ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ کے قاتل بھی ہیں

156

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) مسلم حکمران صرف باعث تذلیل ہی نہیںبلکہ امت مسلمہ کے قاتل بھی ہیں‘ مسلم دنیا کے بادشاہ، فوجی اور سیاسی رہنمااسرائیل کیخلاف فلسطین ، لبنان اور ایران کی مدد کرنے کے بجائے صرف اپنے اقتدار کوطول دینا چاہتے ہیں اورعالم کفرکے اتحادی بھی ہیں‘اسلام میں حکمرانی کا منصب جاہ وحشمت اور حصول منفعت کا باعث نہیں ہوتا بلکہ کانٹوں کی سیج اور بھاری ذمہ داری ہے۔ان خیالات کا اظہارصحافی خورشید تنویر ، صحافی اوریا مقبول جان اورصحافی سجاد میر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا مسلم دنیا کے بادشاہ، فوجی اور سیاسی رہنما امتِ مسلمہ کی تذلیل کا سبب ہیں ؟‘‘صحافی خورشید تنویر نے کہا کہ تذلیل کا سبب تو بہت چھوٹی سی بات ہے اصل میں مسلم دنیا کے بادشاہ، فوجی اور سیاسی رہنما امتِ مسلمہ کے قاتل ہیں‘ آج غزہ میں معصوم بچوں کاقتل عام اور خواتین کو بے آبرو کر کے قتل کیا جا رہا ہے اور مسلم دنیا کے حکمران اسرائیل کے اس کھیل میں اس کے ساتھ برابر کے شریک ہیں‘ مسلم حکمرانوں کی پہلی ذمہ داری یہی ہے کہ حق اور عدل کا قیام عمل میں لائیں‘ لوگوں کے تنازعات اور معاملات کو انصاف کے ساتھ نمٹائیں‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کی شریعت کو نافذ کریں لیکن اس کے برعکس مسلم دنیا کے بادشاہ ،فوجی اور سیاسی رہنما اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے میں مصروف ہیں‘ آج دنیا میں خونِ مسلم بے دردی سے بہایا جا رہا ہے اور مسلم دنیا کے بادشاہ، فوجی اور سیاسی رہنما امتِ مسلمہ کے قاتلوں سے معاہدے کر رہے ہیں‘ غزہ، لبنان اور ایران کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن دیگرمسلم ممالک امت مسلمہ کوتحفظ دینے میں یکسر ناکام ہیں اور ان کی کوئی مدد نہیں کر رہے ہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران امت مسلمہ کو تباہ کر نے میں عالم کفر کی ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں۔ صحافی اوریا مقبول جان نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا میں جو مسلمانوں کا قتل عام ہو رہاہے اس میں مسلم دنیا کے بادشاہوں، فوجی اور سیاسی رہنمائوں کا برابر کا ہاتھ ہے‘ یہ ایک حقیقت ہے چند دن قبل امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن سے خود محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ان کو فلسطینیوں کی کوئی فکر نہیں ہے لیکن میرے ملک کے عوام خاموش رہنے کے باوجود فلسطینیوں سے ہمدردی رکھتے ہیں‘ یہ صورتحال حکومت کے لیے خطرناک ہے‘ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو امت مسلمہ کی مدد کے بجائے یہ فکر ستائے جا رہی ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو کس طرح طویل کر سکتے ہیں‘ مسلم دنیا کے حکمران نیکی اور تقویٰ کے مطابق حکومت کرتے ہو ئے عدل قائم رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ رسول اکرمؐ کا فرمان ہے ’’ امام ڈھال ہے جس کی آڑ میں قتال اور دفاع ہوتا ہے‘ اگر وہ تقویٰ اور عدل سے حکومت کرتا ہے تواس کے لیے اجر ہے اور اگر اس کے مطابق حکومت نہیں کرتا تو اس کے لیے عذاب ہے‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔ حدیث کے الفاظ پر غور کریں کہ آج مسلم دنیا کے بادشاہ، فوجی اور سیاسی رہنما مسلمانوں کی ڈھال بننے کے بجائے وبال بن کر عالم کفر کے ساتھ مل کر مسلم امہ کونشانہ بنانے میں شامل ہیں۔صحافی سجاد میر نے کہا کہ مسلم دنیا کے بادشاہوں، فوجی اور سیاسی رہنمائوں میں اتحاد کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے‘ اب نہ وہ ایک جسم کی مانند ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کی مدد کرنے کو تیار ہیں‘ان میں سے کوئی امریکا کا، کچھ کے چین اور بعض روس کے اتحادی ہیں‘ اب شیعہ سنی دونوں اپنے آپ کو الگ تصور نہیں کرتے کیونکہ عالم کفر مسلمانوں کے قتل عام میں شیعہ سنی کی تفریق نہیں کرتا‘ ان کے سامنے سب مسلمان ہیں لیکن مسلم حکمران اپنے عوام کے دفاع میں کہیں نظر نہیں آتے‘ حکمران اپنی قوم اور ملک کے لیے خیر و برکت کا باعث ثابت ہوتے ہیں لیکن اسرائیل فلسطینیوں اور لبنانیوں کا جس طرح قتل عام کر رہا ہے اس کو روکنے کے لیے ایران کے سوا کسی مسلم ملک نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ جیساکہ نبی کریمؐ کا فرمان ہے ’’امام عادل کی کوئی دعا ردّ نہیں ہوتی‘‘ اس لیے کہ اللہ کے ہاں اس کی قد و منزلت اور عزت ہوتی ہے‘ اسلام میں حکمرانی کا منصب جاہ وحشمت اور حصول منفعت کا باعث نہیں ہوتا بلکہ کانٹوں کی سیج اور بھاری ذمہ داری ہے۔ اسلام نے حکمرانوں پرکچھ ذمہ داریاں عاید کی ہیں جنہیں پورا کرنا ان کے لیے لازم ہوتا ہے‘ ان کے ذمہ رعایا کے حقوق ہیں جو انہیں نے ادا کرنے ہوتے ہیں۔