اسلام آباد: انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف ) کے ساتھ طے پانے والے 7 ارب ڈالر کے معاہدے کی بنیادی مفروضات ایک ماہ کے اندر ہی غیر مستحکم ہوگئی ہیں، جس کے بعد حکومت کو یا تو پیکج پر دوبارہ مذاکرات کرنے پڑیں گے یا مزید ٹیکسوں سے معیشت پر بوجھ بڑھانا پڑے گا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، تقریباً 13 کھرب روپے کے ٹیکس ہدف کے لیے جن چار کلیدی مفروضات کو بنیاد بنایا گیا تھا ، معاشی ترقی، مہنگائی، بڑے پیمانے کی صنعت اور درآمدات ، ان میں سے تین غلط ثابت ہوچکے ہیں ۔ وفاقی حکومت نے چاروں صوبوں کی جانب سے بھی زائد وعدے کیے تھے جو معاہدے کے فوری بعد پورے نہیں ہو سکے۔
پہلی سہ ماہی (جولائی-ستمبر) کے اعداد و شمار میں ایف بی آر کے ٹیکس وصولی کے ہدف اور صوبائی نقد سرپلس میں بھی بڑی کمی سامنے آئی ہے۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے بھی عوامی سطح پر مارکیٹ میں طے شدہ ایکسچینج ریٹ پالیسی پر ناپسندیدگی ظاہر کی ہے، جبکہ آئی ایم ایف مزید کرنسی ڈی ویلیو ایشن کا مطالبہ کر رہا ہے۔
آئی ایم ایف معاہدے کی جلد ناکامی کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ معاہدے میں 3 فیصد کی جی ڈی پی شرح نمو کو برقرار رکھا گیا ہے لیکن مہنگائی، درآمدات اور بڑے پیمانے کی صنعتوں کی پیداوار اپنے مقررہ ہدف سے پیچھے ہیں۔ پیش گوئی کے مطابق 12.9 فیصد مہنگائی کے مقابلے میں اصل اوسط شرح 9.2 فیصد رہی ۔
وزارت خزانہ نے اکتوبر میں مہنگائی میں مزید کمی کی توقع ظاہر کی ہے، جبکہ درآمدات میں صرف 8 فیصد اضافہ ہوا جس کے باعث ٹیکس وصولی میں بھی کمی آئی۔ ایف بی آر کو پہلے ہی 90 ارب روپے کا ٹیکس خسارہ ہوچکا ہے، اور سال کے آخر تک یہ خسارہ 350 سے 400 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے ناکامی کی صورت میں طے کردہ اضافی اقدامات مزید مالیاتی دباؤ ڈالیں گے۔ معاہدے کا جامع جائزہ ضروری ہو گیا ہے کیونکہ اضافی بجٹ بھی غیر حقیقی اہداف پورا نہیں کر سکتا۔
صوبائی حکومتیں بھی 342 ارب روپے کے سرپلس میں ناکام رہیں، جس سے مالیاتی استحکام پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔