مدارس دینیہ کے طلبہ کی اسناد کا مقدمہ (آخری حصہ)

198

عامہ، خاصہ اور عالیہ کو میٹرک، انٹر اور بی اے کے برابر بغیر کسی اضافی شرط کے تسلیم کیا جائے۔

حکومت اور مدارس کے وفاق طلبہ کی ڈگری کے حوالے سے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

ہم بی ایس کا مطالبہ اس لیے کررہے ہیں کہ ایم اے کا آئندہ کوئی مستقبل نہیں ہے، آج بیرون ممالک صرف بی ایس کی بنیاد پر داخلے مل رہے ہیں جبکہ مدارس سے ہر سال ہزاروں طلبہ وطالبات سند فراغت حاصل کرتے ہیں اور اس وقت ان کو ایک ایسی ڈگری کی ایکولنس دی جارہی ہے جس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

ہم ہر طرح کی اہلیت کی بات اس لیے کررہے ہیں کہ دین و دنیا کی تقسیم ختم ہو، قرآن و سنت کا علم رکھنے والے جب ہر محکمے میں ملازمت کے اہل قرار دیے جائیں گے تو وہ ملک و ملت کی تعمیر میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرسکیں گے اور مفید شہری ہونے کا ثبوت دیں گے۔ اور معاشرتی تقسیم میں بھی کمی واقع ہوگی۔

ہم مدارس کی ذیلی اسناد کی مساوی حیثیت منظور کرنے کا مطالبہ اس لیے کررہے ہیں۔ جب مدرسے کا طالبعلم اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹیوں کا رخ کرتا ہے یا کمیشن و دیگر امتحانات کے لیے اپلائی کرتا ہے ہر جگہ نچلی اسناد کے کچھ فی صد نمبر شمار کیے جاتے ہیں۔ جب ہماری ذیلی کوئی سند ہی نہیں تو وہاں طالبعلم کو صفر ملتا ہے اور وہ مقابلے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ اور ذیلی اسناد کا منظور ہونا اس لیے بھی ضروری ہے اگر طالبعلم کسی وجہ سے عالمیہ تک تعلیم حاصل نہ کر پائے تو ذیلی اسناد اس کے کسی کام کی نہیں جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ عامہ کی بنیاد پر میٹرک کی سطح کی وہ تمام مراعات مدرسے کے طالبعلم کو ملنی چاہیے جن کا اہل ایک عام بورڈ سے پڑھنے والا طالبعلم ہوتا ہے اسی طرح خاصہ کی بنیاد پر انٹر اور عالیہ کی بنیاد پر بی اے وغیرہ۔

ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق ضروری مضامین کی تعلیم مدارس کے طلبہ کو دلوائی جائے اور جہاں جہاں دلوائی جارہی ہو کم از کم ان کی ڈگری کو فوری بغیر کسی اضافی شرط کے تسلیم کیا جائے۔

حکومت اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے درمیان 7 اکتوبر 2010 میں جو معاہدہ ہوا تھا اس کو قاری حنیف جالندھری صاحب کے نام سے پریس میں یوں شائع کیا گیا تھا:

7 اکتوبر 2010ء کو حکومت اور مدارس دینیہ کی قیادت کے مابین جن امور پر اصولی اتفاق کیا گیا، وہ درج ذیل ہیں:

1) حکومت دینی مدارس کے پانچوں نمائندہ وفاقوں کو خود مختار تعلیمی اور امتحانی بورڈ کا درجہ دے گی اور ایگزیکٹو آرڈر یا ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے اس بورڈکو قانونی اور آئینی حیثیت دی جائے گی۔ 2) دینی مدارس میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ تک عصری مضامین کو شامل کیا جائے گا۔ 3) دینی مدارس گورنمنٹ کی طرف سے شائع کردہ متعلقہ کلاس کی عصری مضامین کی کتب پڑھائیں گے، اپنے لیے کوئی الگ نصاب یاکتب تیار نہیں کریں گے۔ 4) درس نظامی اور دینی علوم کے حوالے سے حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا، مدارس دینیہ اپنے نصاب کی تشکیل وتعیین اور تدریس وتعلیم کے سلسلے میں مکمل طور پر آزاد اورخود مختار ہوں گے۔ 5) ہر وفاق کی نصاب کمیٹی میں حکومت کے دو نمائندے ہوں گے جو بوقت ضرورت صرف عصری مضامین کی تعلیم وتدریس اور معیار کے حوالے سے ہونے والی مشاورت میں شریک ہوں گے۔ ان دونوں نمائندوں کا دینی نصاب ونظام سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ 6) عصری مضامین کے نصاب تعلیم، معیار تعلیم اور معیار امتحان میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے مدارس کے نمائندہ وفاقوں اور حکومت کے درمیان ایک مشترکہ ادارہ بنے گا، جس کا نام، دائرہ اختیار، دائرہ کار اور ہیئت کے حوالے سے اگلے اجلاس میں مشاورت کی جائے گی۔ 7) رجسٹریشن ایکٹ جو ۶۰۰۲ء میں جاری ہو چکا اور نافذ العمل بھی ہے، دینی مدارس اس کی مکمل پاسداری کریں گے۔ 8) حکومت کسی بھی مدرسے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی تاوقتیکہ وہ ٹھوس ثبوت کے ساتھ متعلقہ وفا ق کو اعتماد میں نہ لے۔ 9) ایکٹ آف پارلیمنٹ ایگزیکٹو آرڈر کا مسودہ حکومت اور اتحاد تنظیمات مدارس کی باہمی مشاورت سے تیار کیا جائے گا، حکومت یک طرفہ طور پر کوئی مسودہ پیش نہیں کرے گی۔

2017 میں جب دوبارا حکومت نے اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کو مذاکرات کے لیے طلب کیا تو اتحاد تنظیمات نے کہا کہ بات پرانے معاہدے سے شروع کی جائے اور گورنمنٹ نے ایک بار پھر پچھلے معاہدے کی توثیق کی اور اس پر عملدرآمد کا وعدہ کیا۔

اب ہمارا یہ سوال ہے کہ جب اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان اور حکومت کے مابین یہ معاہدہ ہوا تھا تو اس پر عمل کیوں نہیں ہوسکا۔ رکاوٹ کیا ہے؟۔ مدارس کے طلبہ کی ذیلی اسناد کو کیوں منظور نہیں کیا گیا؟ مدارس کے وفاقوں کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے سے کیوں پرائیویٹ تعلیمی بورڈ تسلیم نہیں کیا جاسکا اور کیوں مدارس کے طلبہ کے مستقبل کے حوالے سے اتنی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔

ساری کوششوں کے بعد ہمارے سامنے نتیجہ آیا کہ ۷۷ سال گزرنے کے باوجود ان معاملات کے حل نہ ہونے کی وجہ صرف یہی ہے کہ اہل مدارس کے درمیان اتحاد نہیں ہے لہٰذا متحد ہونے کی ضرورت ہے جب تک ہم کم از کم اپنے ان مشترکہ مسائل کے لیے بیک آواز پرزور مطالبہ نہیں کریں گے تب تک یہ معاملات حل نہیں ہوسکتے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ اگرچہ مدارس کے وفاقوں نے اسناد کے مسائل حل کروانے کے لیے تگ و دو کی ہے لیکن جس قدر سنجیدہ کاوش کی جانی چاہیے تھی اس قدر نہیں کی گئی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف پرزور مطالبہ کیا جائے بلکہ اس کے لیے ضروری اقدامات بھی اٹھائے جائیں۔ اور اس کے لیے خود طلبہ جب تک بیدار نہیں ہوں گے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا طلبہ کو شعور اور آگہی دینے کے لیے جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان، ملک پھر میں پچاس سے زائد مقامات پر اتحاد طلبہ مدارس کنونشن کا اہتمام کر رہی ہے جس کا سلسلہ ۰۲ نومبر تک جاری رہے گا۔

ہماری یہ خواہش و کوشش ہے جس طرح اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان تمام مکاتب فکر کے وفاقوں کا نمائندہ پلیٹ فارم ہے اسی طرح اتحاد طلبہ مدارس پاکستان کے نام سے طلبہ کا ایک نمائندہ پلیٹ فارم ہو جس میں تمام مکاتب فکر کے طلبہ موجود ہوں تاکہ جب کبھی مدارس کے طلبہ کے حوالے سے پالیسی اختیار کی جائے وہاں طلبہ کی نمائندگی لازمی شامل ہو۔