اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ جہاں ملکِ خداداد پاکستان کو جمہوریت اور شورائیت سے آمریت اور آئینی بحرانوں کی طرف دھکیلنے میں عدالت ِ عظمیٰ کا بہت بڑا کردار ہے وہاں اس سے بڑا کردار دین سے پاکستانی عوام کو دور رکھنے میں بھی اسی عدالت عظمیٰ کا ہے۔ اس بل سے عدالت ِ عظمیٰ کے اختیارات کو مقننہ نے کتنا محدود کیا ہے، اس پر تفصیلی گفتگو ہم بعد میں کریں گے۔ قبل ازیں میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ آئین کو دین ِ اسلام سے ہم آہنگ کرنے میں جو خلیج حائل تھی اسے پاٹنے کے لیے 26 ویں ترمیم میں کیا کیا اقدام کیے گئے ہیں۔
ابھی قوم ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسی عالمی اسلامی شخصیت کے دورۂ پاکستان اور حکومتی سطح پر بھرپور پذیرائی کی خوشگوار حیرانی میں ہی تھی کہ 26 ویں ترمیم سے دین ِ اسلام کی طرف اچانک پیش رفت نے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ اور پاکستانی قوم جو نفاذِ اسلام کے جمہوری راستے تقریباً بند ہونے کے بعد اسلامی انقلاب کے منتظر تھی وہ ایک بار پھر اللہ اور رسولؐ کے ساتھ 77 سالہ جاری لڑائی کی جنگ بندی پر آمادہ اور اجتماعی توبہ پر مائل نظر آئی۔ یہ تمام ترامیم ایسے وقت میں لائی گئی ہیں جب دنیا کی سپر طاقتیں آپس میں لڑلڑ کر کمزور ہو رہی ہیں۔ ایسا ہی وقت تھا جب دنیا کی دو طاقتیں سلطنت ِ روم اور فارس آپس میں لڑ لڑ کر کمزور ہو رہے تھیں اور محمدؐ اور صحابِ کرام کی جماعت مضبوطی پکڑ رہی تھی۔ اور ایک وقت آیا کہ 7 ہزار کی مسلم فوج نے ایک لاکھ مسلح اور تربیت یافتہ فوج کو ڈھیر کیا۔ اور مشرق و مغرب میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اگر آج ہم نے ارادہ کیا ہے کہ تین سال میں ہم سود کو ختم کر کے من حیث القوم اللہ سے معافی کے خواستگار ہیں تو اللہ کی نصرت ہمارے شامل ِ حال ہوگی اور پاکستان صحیح معنی میں اسلام کا قلعہ بن کر دنیا کی بلا سودی معیشت کے لیے ایک رول ماڈل بن جائے گا جس کی پیروی کرنے کے لیے دنیا بھر کی سود سے تنگ آئی ہوئی اقوام و عوام اسلام کی طرف مائل ہوں گی۔
آئین کا آرٹیکل 38 جو عوام کی معاشی اور معاشرتی خوشحالی کی ضمانت دیتا ہے اس کی کلاز ایف، جس میں 1973 سے یہ درج تھا کہ پاکستان سے جتنا جلدی ممکن ہو سود کا خاتمہ کیا جائے گا اس کلاز کو بدل کر یوں لکھا گیا ہے کہ ’’سود کا مکمل خاتمہ یکم جنوری 2028 سے پہلے لازماً کیا جائے گا‘‘۔ گویا کہ اس کلاز کے مطابق آئینی طور پر پاکستان کے تمام مالیاتی ادارے، اسٹیٹ بینک، کمرشل بینک، انشورنس کمپنیاں، تکافل، مضاربہ، مشارکہ اور دیگر وہ ادارے جو سودی لین دین میں ملوث ہیں انہیں پابند کیا گیا ہے کہ 31 دسمبر 2027 تک اپنے اپنے قوانین و ضوابط اور پروسیجرز میں ترامیم و اضافہ کریں تاکہ تمام معاشی و مالیاتی لین دین سے سود کی لعنت کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے۔ اس کلاز کی روشنی میں اب عدالت کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہوا ہے کہ وہ سودی کاروبار جاری رکھنے کے لیے کوئی فیصلہ دے۔
آرٹیکل 203 سی میں اضافہ کیا گیا ہے کہ وفاقی شریعت عدالت کا جج بھی اس عدالت کا چیف جسٹس بن سکتا ہے۔ قبل ازیں اس عدالت کا چیف جسٹس صرف سپریم یا ہائی کورٹ کا کوئی جج بن سکتا تھا۔ اور یوں وفاقی شریعت عدالت کے ججوں کے رتبے کو بڑھا کر عدالت عالیہ یا عدالت عظمیٰ کے ججوں کا ہم پلہ بنا کر ان کی توقیر اور قدر میں اضافہ کرنا بھی ایک احسن قدم ہے۔ آرٹیکل 203 ڈی (2) میں اضافہ کیا گیا ہے کہ وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا فیصلہ ایک سال کے اندر کیا جائے گا بصورتِ دیگر وہ فیصلہ از خود نافذالعمل ہو گا بشرطیکہ عدالت عظمیٰ اس فیصلے کو معطل نہ کر دے۔ اس طرح پہلے سود کے خلاف جن اپیلوں کو سرخ فیتے کی نذر کیا جاتا تھا وہ اب نہیں ہو گا۔
آرٹیکل 229 میں یہ ترمیم کی گئی ہے کہ پہلے وفاقی شریعت عدالت کی رائے حاصل کرنے کے لیے کسی بھی صوبائی یا قومی اسمبلی کے 40 فی صد ارکان کا متفق ہونا لازم تھا۔ اب اس تعداد کو کم کر کے 25 فی صد کر دیا گیا ہے۔ گویا کہ اب آسانی پیدا کی گئی ہے کہ اگر کسی اسمبلی کے 25 فی صد اراکین بھی یہ محسوس کریں کہ فلاں قانون خلافِ قرآن و سنت ہے تو وہ ایک قرارداد کے ذریعے اسے وفاقی شریعت عدالت کو رائے کے لیے بھیج سکتے ہیں۔ آرٹیکل 230 میں اضافہ کیا گیا ہے کہ وفاقی شریعت عدالت کی حتمی رپورٹ کو بہر صورت ایک سال کے اندر قومی اسمبلی کے دونوں ایوانوں اور صوبائی اسمبلیوں میں زیر ِ غور لایا جائے گا۔
جی اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ عدالتی نظام میں کیا کیا ترامیم، احذاف اور اضافے ہوئے ہیں۔ جب ہم ایل ایل بی کرتے ہیں تو ہمیں 8 لیڈنگ کیسز پڑھائے جاتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے کن کن مواقع پر جمہوریت کی گاڑی کو پٹری سے اُتارا ہے یا اُتارنے میں معاونت کی ہے۔ صرف 2 کیسز کا حوالہ دے کر ہم آگے چلیں گے۔ پہلا کیس مولوی تمیز الدین کا ہے کہ جس میں سندھ ہائی کورٹ نے گورنمنٹ کی دلیل کو رد کرتے ہوئے اسمبلی کو بحال کرنے کا فیصلہ دیا تھا جبکہ عدالت ِ عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے جسٹس محمد منیر کی قیادت میں اسی بودی دلیل کو مان کر اسمبلی کی غیر آئینی تحلیل کو جائز قرار دے دیا۔ چار مسلمان منصفوں نے اسمبلی توڑنے کی حمایت کی اور ایک غیر مسلم جسٹس کارنیلیس نے اسمبلی توڑنے کی مخالفت میں فیصلہ دیا۔ اس سے بڑھ کر عدالت عظمیٰ نے ظلم کیا جب ڈوسو قتل مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کو 1956 کے دستور میں عوام کو دیے گئے بنیادی حقوق کی بنا پر بری کر دیا۔ جب گورنمنٹ نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اکتوبر 1958 میں اپیل کی تب تک 1956 کا دستور ایک فوجی آمر توڑ چکا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے چار رکنی بنچ نے جسٹس محمد منیر کی قیادت میں فیصلہ دیا کہ جب آئین ہی ٹوٹ چکا ہے تو بنیادی حقوق بھی ختم ہو گئے ہیں اور ڈوسو کو پھانسی کی سزا سنا کر پہلے عوامی آئین کے قتل کا جواز عدالت ِ عظمی نے خود ہی فراہم کر دیا۔ یہاں بھی جسٹس کارنیلیس نے اختلافی فیصلہ دیا تھا۔
جب عدالت عظمیٰ نے اس غیر آئینی عوام دشمن عمل کو بار بار دہرایا تو عوامی نمائندگان میں تشویش کی لہر دوڑنا ایک فطری عمل تھا۔ چنانچہ 14 مئی 2006 میں ملک کی دو بڑی نمائندہ سیاسی جماعتوں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے میثاقِ جمہوریت میں عزم کیا کہ ملک میں بار بار عوامی حکومت کو ڈی ریل کرنے کے جواز فراہم کرنے والی عدالت عظمیٰ کا کوئی تو بندوبست کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے آئینی ترامیم ناگزیر تھیں جو پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کی مرہونِ منت تھیں۔ اب جبکہ عدلیہ اور مقننہ کی چپقلش عروج پر تھی اور عمرانی دورِ حکومت نے ایک بار پھر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اپوزیشن کو یکجا کر دیا تھا تو یہی وقت 26 ویں ترمیم کے لیے مناسب تھا۔
میرا خیال ہے کہ صرف سوموٹو اختیار کے علاوہ کوئی بھی اختیار عدلیہ سے نہیں لیا گیا۔ اس کے علاوہ وزیر ِ اعظم کو عدالت میں پیشی سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔البتہ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ میں آئینی بنچز بنا کر آئین سے متعلقہ اختیارات آئینی بنچوں کے حوالے کیے ہیں اور بقیہ اختیارات موجودہ عدلیہ کے پاس چھوڑ دیے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے آئینی بنچ کو آرٹیکل 184 کے تحت صوبائی حکومتوں کے مابین یا صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے مابین تنازعات پر فصلہ کرنے کا اختیاردیا گیا ہے۔ آرٹیکل 185 (3) کے تحت آئین کی تشریح کا اختیار دیا گیا ہے؛ اور آرٹیکل 186کے تحت صدارتی ریفرنس پر آئینی رائے کا اختیار دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں آرٹیکل 199 کے تحت دائر کی جانے والی بنیادی حقوق کی درخواستوں کی سماعت کا اختیار تمام ہائی کورٹس کے آئینی بنچوں کو تفویض کر دیا گیا ہے۔ بقیہ تمام اختیارات جن کا ذکر 17 اکتوبر کو شائع ہونے والے مضمون میں کیا گیا تھا، وہ جوں کے توں عدالت عظمیٰ کے پاس ہی موجود رہیں گے۔ اس کے علاوہ عدالتی نظام میں بالخصوص ججوں کے تقرر کے حوالے سے کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟ پہلے جیوڈیشل کمیشن کو اختیار تھا کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کے لیے تین سینئر ججوں کے نام صدر کو بھیجے اب یہ اختیار اسپیشل پارلیمانی کمیٹی کو دے دیا گیا ہے۔ یہ کمیٹی 12 پارلیمنٹیرینز پر مشتمل ہے جن میں سے 8 کا قومی اسمبلی اور 4 کا سینیٹ سے تعلق ہو گا۔ جیوڈیشل کمیشن میں 2 ارکانِ سینیٹ اور 2 ارکانِ قومی اسمبلی جن میں سے ایک ایک حکومتی جماعت اور ایک ایک اپوزیشن پارٹی سے تعلق رکھتا ہو کو مزید شامل کیا گیا ہے۔
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور نیتوں کا حال تو اللہ جانتا ہے۔ 26 ویں ترمیم کے محرکات تو عدلیہ اور مقننہ کی تاریخی چپقلش کا شاخسانہ ہی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے شاید اسی سے خیر کو برامد کرنا تھا۔ جو عدالت عظمیٰ سود کے خاتمے اور جمہوریت و شورائیت کے تسلسل میں مسلسل رکاوٹیں پیدا کر رہی تھی اس کا راستہ روکنا ضروری تھا۔ اس عمل کے ساتھ ہمیں یہ بونس بھی مل گیا کہ دستورِ پاکستان میں کئی اور اسلامی دفعات شامل کر کے اسلامی جمہوری پاکستان میں اسلام اور جمہوریت دونوں کو مضبوط کیا گیا ہے جس کے آئندہ چند سال میں دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔ان شاء اللہ۔