میلے ٹھیلے گائوں کی جان ہوتے ہیں یہ نہ ہوں تو دیہی زندگی بے رونق ہوجائے۔ بھائی الٰہ دین ایک گائوں میں اپنے دوست سے ملنے گئے تو وہاں میلہ برپا تھا۔ وہ دوست انہیں بھی میلے کی سیر کرانے لے گیا۔ سردیوں کے دن تھے بھائی الٰہ دین نے اپنے کاندھے پر ایک گرم چادر ڈال رکھی تھی۔ رش میں کسی نے یہ چادر ان کے کاندھے سے کھینچ لی۔ انہوں نے شور بھی مچایا لیکن میلے میں بھلا کون سنتا تھا۔ واپس آئے تو لوگوں نے پوچھا ’’میلہ کیسا رہا؟‘‘۔ بھائی الٰہ دین نے جواب دیا ’’سچ پوچھو تو وہ میلہ نہیں تھا، میری چادر چرانے کے لیے ایک ڈراما رچایا گیا تھا‘‘۔ اس واقعے کا یا لطیفے کا تعلق 26 ویں آئینی ترمیم سے تو دور کا بھی نہیں ہے لیکن تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج سید منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روکنے اور ان کی چیف جسٹس کی چادر چرانے کے لیے 26 ویں آئینی ترمیم کا میلہ رچایا گیا ہے۔ جن سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ڈرے ہوئے تھے۔ انہیں خوف تھا کہ منصور علی شاہ چیف جسٹس بن گئے تو 8 فروری 2024ء کے الیکشن میں کی گئی ساری جعلسازی کھل جائے گی اور موجودہ غیر نمائندہ حکومت کو گھر جانا پڑے گا۔ ممکن ہے ان جعلسازوں پر آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا مقدمہ بھی قائم ہوجائے گا۔ رانا ثنا اللہ تو اتنے خوفزدہ تھے کہ وہ بار بار دہائی دے رہے تھے کہ جسٹس منصور علی شاہ کو روکو ورنہ ہم سب مارے جائیں گے۔ آرٹیکل 6 کسی ایک پر نہیں ہم سب پر لگے گا۔ چنانچہ بہت سوچ بچار کے بعد چھبیسویں آئینی ترمیم کا میلہ سجایا گیا جو ایک نہیں دسیوں ترامیم کا مجموعہ ہے۔ پھر اس ترمیم کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے لیے حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سارے ادارے حرکت میں آگئے۔ حکومت ویسے ہی چھوٹی جماعتوں کی بیساکھیوں پر قائم ہے اس کے پاس تین چوتھائی اکثریت کہاں کہ وہ ترمیم منظور کرلیتی۔ آئینی ترمیم کے اس میلے میں سب سے نمایاں کردار مولانا فضل الرحمن کا تھا اگر ہم اس میلے کو بارات سے تشبیہ دیں تو اس بارات کے دولہا مولانا فضل الرحمن تھے جنہوں نے کیا مسلم لیگ (ن)، کیا پیپلز پارٹی اور کیا تحریک انصاف سب کو اپنے آگے لگا رکھا تھا۔ یہ سب جماعتیں ان کی بلائیں لے رہی تھیں، ان کی فراست اور دور اندیشی کا لوہا مان رہی تھیں اور آئینی ترمیم کے سرکاری مسودے کے مقابلے میں اپنا مسودہ پیش کرنے پر ان کے گن گا رہی تھیں۔ حضرت مولانا کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے آئینی ترمیم کا نیا مسودہ پیش کرکے کالے سانپ کے نوکیلے دانت نکال دیے ہیں۔ حالانکہ ان کے مسودے میں بھی کالا سانپ اپنے نوکیلے دانتوں کے ساتھ موجود تھا لیکن ایسی ملمع سازی کی گئی تھی کہ دیکھنے والوں کو کالا سانپ اور اس کے نوکیلے دانت نظر نہیں آرہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مبارکباد کے شور میں جونہی ترمیم منظور ہوئی، کالا سانپ پھن پھیلا کر کھڑا ہوگیا اور اس نے جسٹس منصور علی شاہ کو ڈس لیا۔ دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا سب سے بڑا دردِ سر ہی یہ تھا کہ منصور علی شاہ چیف جسٹس نہ بننے پائیں۔ حضرت مولانا نے بڑی آسانی سے یہ کام کر دکھایا۔ ہمیں حیرت تو تحریک انصاف پر ہے اس کے اور حضرت مولانا کے درمیان بارہ سال تک اینٹ اور کتے کا بیر رہا۔ دونوں ایک دوسرے پر کوئی لحاظ کیے بغیر گھٹیاں الزام تراشی کرتے رہے، لیکن اسے حضرت مولانا کا کمال کہیے انہوں نے ایسا کیا منتر پڑھا کہ تحریک انصاف ان کی مرید ہوگئی اور اس کے لیڈر آئے دن حضرت مولانا کے دولت خانے پر سجدہ ریز نظر آنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ حضرت مولانا کی پیش کردہ آئینی ترمیم کے بھی قائل ہوگئے حالانکہ تحریک انصاف کا اصولی مؤقف یہ تھا کہ موجودہ جعلی اور غیر نمائندہ حکومت کوئی آئینی ترمیم کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ اس کا یہی مؤقف درست اور مبنی برحقیقت تھا۔ اس نے اس موقف سے پسپائی اختیار کرکے رسوائی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں کیا۔ حضرت مولانا میدان سیاست کے پہلوان ہیں، انہوں نے تحریک انصاف کو ایسی پٹخی دی ہے کہ وہ اس چوٹ کو ہمیشہ سہلاتی رہے گی۔
حضرت مولانا نے آئینی ترمیم کے اپنے مسودے کو مقبول بنانے کے لیے اسے اسلامی ٹچ بھی دیا ہے اور اس کی ایک شق میں کہا گیا ہے کہ 2028ء تک ملک سے سود کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ حضرت مولانا ہم سے زیادہ جانتے ہیں کہ پاکستان کی پوری معیشت آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے جو سود پر قرضہ دیتا ہے اور پاکستان میں معیشت کو چلانے کے لیے سود کی شرح کا تعین بھی اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ پاکستان نے اس کے علاوہ بھی عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے سود پر قرضہ لے رکھا ہے۔ جبکہ چین، سعودی عرب اور دیگر دوست ملکوں کا اربوں ڈالر کا قرضہ بھی پاکستان پر چڑھا ہوا ہے جس پر وہ باقاعدہ سود بھی ادا کرتا ہے۔ اب اندازہ کیجیے کہ آئندہ چار سال کے دوران ایسا کون سا معجزہ رونما ہوجائے گا کہ پاکستان اپنے تمام سودی قرضے ادا کرکے سبکدوش ہوجائے گا اور اپنی معیشت کو سود سے پاک کرلے گا۔
ایں خیال است و کمال است و جنوں است
جنرل ضیا الحق کے زمانے میں جب پاکستانی معیشت کو سود سے پاک کرنے کا غوغا اُٹھا تھا تو انہوں نے بینک اکائونٹس کو پی ایل ایس (Profit and Loss Sharing) کرکے اپنے طور پر یہ مسئلہ حل کردیا تھا حالانکہ وہ بھی سودی کاروبار کی ایک شکل تھی۔ حضرت مولانا کے پاس تو ایسا بھی کوئی ٹوٹکا نہیں ہے جس سے وہ پاکستانی معیشت کو سود سے پاک کرسکیں۔ ہمیں حیرت تو مفتی تقی عثمانی پر ہے انہوں نے حضرت مولانا سے گلے مل کر یوں مبارکباد دی ہے جیسے انہوں نے واقعی سود کا خاتمہ کردیا ہے، حالانکہ وہ خود کئی بینکوں کے مشاورتی بورڈ میں شامل ہیں جنہیں وہ بلاسود بینکاری سے متعلق مشورہ دیتے ہیں اور اس کا بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں لیکن وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان کے مشوروں سے واقعی ان بینکوں میں بلاسود بینکاری رائج ہوگئی ہے۔
یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ پاکستانی معیشت اسی وقت سود سے پاک ہوگی جب وہ سودی قرضوں اور بیرونی دبائو سے آزاد ہوجائے گی۔ یہ کام ہمیں اپنی اور حضرت مولانا کی زندگی میں تو ہوتا نظر نہیں آتا۔ البتہ 26 ویں آئینی ترمیم میں یہ شق شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت مولانا کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہیں۔ اگر 2028ء میں سود کا خاتمہ نہ ہوا تو انہیں کون پوچھے گا۔