جاپان میں موجودہ انتخابات نے سیاست دانوں کوکئی چیلنجز کے سامنے لا کھڑا کیا ہے، موقر روزنامے گارجین کی حالیہ رپورٹ نے اس تمام صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے ایک مفصل رپورٹ شائع کی ہے جس کے چیدہ چیدہ نکات کا جائزہ جاپان کی موجودہ سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔
نئے وزیر ِ اعظم شیگرو اِشیبا اور ان کی جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) کو ووٹرز کے بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کا سامنا ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں مہنگائی، پارٹی کے فنڈ اسکینڈل، اور حکومتی پالیسیوں پر عوام کی تنقید شامل ہیں۔ گارجین کی رائے میں، یہ انتخابات گزشتہ برسوں کی نسبت زیادہ شدید ثابت ہوئے ہیں اور ان کے نتائج ایل ڈی پی کے اقتدار کے تسلسل کو براہ راست متاثر کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ تبصرہ درست ثابت ہوتا ہے اور آیا اِشیبا عوامی اعتماد دوبارہ حاصل کر پائیں گے یا نہیں۔
جاپان میں ایل ڈی پی تقریباً سات دہائیوں سے برسرِ اقتدار رہی ہے، لیکن مختلف مواقع پر اس جماعت کو عوامی بداعتمادی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2009 میں بھی ایک ایسے ہی انتخابی بحران نے ایل ڈی پی کو اقتدار سے عارضی طور پر باہر کر دیا تھا، جب عوام نے معاشی بحران اور حکومت کی ناکامیوں پر سخت ردعمل دیا تھا۔ یہ انتخاب بھی اْسی زمانے کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، اور گارجین کی رپورٹ میں اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ عوام کی بے چینی اور عدم اطمینان ایک بار پھر اسی سطح پر آ چکے ہیں۔ اِشیبا نے اپنے حامیوں کے سامنے انتخابی وعدے تو ضرور کیے، مگر ماضی کی طرح یہ وعدے عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
گارجین نے انتخابات سے قبل پیش گوئی کی تھی کہ اِشیبا کو لیڈر شپ کے لیے سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کی جانب سے عوامی مسائل، جیسے مہنگائی، آبادی میں کمی، اور دیہی علاقوں کی زبوں حالی پر توجہ مرکوز کرنے کے باوجود، پارٹی کے اندرونی مسائل اور اسکینڈل عوام کے اعتماد میں مزید کمی کا سبب بن رہے ہیں۔ گارجین نے اِشیبا کی پالیسیوں میں بار بار ہونے والی تبدیلیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جو ایل ڈی پی کی داخلی کمزوریوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ حالیہ انتخابات کے نتائج گارجین کے خدشات کو کسی حد تک سچ ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں، اور آنے والے وقت میں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا اِشیبا اور ایل ڈی پی اس بحران سے نکل پاتے ہیں یا نہیں۔
گارجین کے مطابق، موجودہ انتخابات میں ایل ڈی پی کے لیے سب سے بڑا چیلنج کانسٹی ٹیوشنل ڈیموکریٹک پارٹی (CDP) ہے، جو سابق وزیر ِ اعظم یوشی ہیکو نودا کی قیادت میں مضبوط ہو رہی ہے۔ سی ڈی پی کی مقبولیت، خاص طور پر نودا کے کرپشن مخالف موقف اور عام آدمی کی مشکلات کو اجاگر کرنے کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ گارجین نے یہ بھی تجویز کیا تھا کہ بہت سے ووٹرز، جو ایل ڈی پی کی روایتی پالیسیوں اور ان پر اثر انداز ہونے والے مالی مفادات سے نالاں ہیں، سی ڈی پی کو متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ تاریخی طور پر، جاپانی ووٹرز کا جھکاؤ ہمیشہ قدامت پسند جماعتوں کی طرف رہا ہے، مگر موجودہ انتخابات نے ایک بار پھر عوامی ردعمل اور نئی قیادت کی ضرورت کو اُجاگر کیا ہے۔
گارجین نے ایل ڈی پی کے فنڈنگ اسکینڈل کا بھی ذکر کیا، جس نے جاپانی سیاست پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ پارٹی کے ان اسکینڈلز نے ایل ڈی پی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور عوام میں اس کے خلاف ناپسندیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ جاپان کے ووٹرز نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پارٹی کا طویل عرصے تک اقتدار میں رہنا اسے تکبر کی طرف لے گیا ہے، جسے عوام مزید برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔
جاپان کی سیاسی تاریخ میں ایل ڈی پی کا کردار نمایاں رہا ہے، مگر اس بار حالات کچھ مختلف ہیں۔ گارجین کی رپورٹ میں ماضی کی ان مثالوں کا حوالہ دیا گیا ہے، جب عوام نے حکومتی بدعنوانی اور معاشی مشکلات کے باعث حکومتوں کو سخت پیغام دیا تھا۔ اب ایک بار پھر جاپان میں تبدیلی کی فضا محسوس کی جا رہی ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ تبصرہ حقیقت میں بدلتا ہے اور ایل ڈی پی کی قیادت مستقبل میں اپنے رویے اور پالیسیوں میں تبدیلی لاتی ہے یا نہیں۔
گارجین کی رپورٹ میں جاپان میں موجودہ انتخابات کو تاریخی تناظر میں دیکھتے ہوئے ایل ڈی پی کے لیے ایک اہم لمحہ قرار دیا گیا ہے۔ اِشیبا اور ان کی جماعت کے لیے یہ انتخابات ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتے ہیں، اور اگر پارٹی عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو جاپان کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہو سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایل ڈی پی اپنی طاقت برقرار رکھتی ہے یا جاپان کی عوام کی جانب سے کسی نئے مستقبل کا انتخاب کیا جاتا ہے۔