18 اکتوبر 2024 کو الجزیرہ نے اردن سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں عامر قاوس اور حسام ابو غزالہ کی شہادت کی خبر جاری کی۔ جب ایک جہادی آپریشن کا آغاز کرنے کے لیے وہ اردن سے پیدل چلتے ہوئے، بحیرہ مردار کے جنوب میں، مقبوضہ فلسطین کے ساتھ سرحدوں میں داخل ہوئے اور بجلی کے کوندے کی طرح یہودی فوجیوں پر ٹوٹ پڑے جس کے نتیجے میں متعدد یہودی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ یہ شہادتیں جب اردن کی سرزمین میں دھڑکیں، وہاں اطلاع ہوئی تو ہزاروں اردنی باشندے شہداء کا جشن منانے کے لیے باہر نکل آئے۔ ہجوم نے شہید عامر قاوس کے والد کو کاندھوں پر اٹھا لیا۔
شہادت سے پہلے حسام ابو غزالہ نے اپنی وصیت میں جو تحریر کیا اس کا حاصل یہ ہے کہ: ’’اس کے باوجود کہ اس کا جہاد اور شہادت انفرادی عمل ہے جس کے مادی اثرات بہت کم ہیں لیکن وہ امید کرتا ہے کہ اس بہادری کے اثرات کے نتیجے میں امت مسلمہ اور اس کے اہل اقتدار کو متحرک ہونا پڑے گا‘‘۔
شہید عامر قاوس اور حسام ابو غزالہ کی شہادتیں جس دنیا کو منور کررہی ہیں، امت مسلمہ کے اس حصے پر، فلسطین کی مقدس سرزمین پر ستر برس سے یہودی قابض ہیں جو مسلمانوں کو شہید کررہے ہیں، درختوں کو جلارہے ہیں، پتھروں کو مسمار کررہے ہیں، بزرگوں، خواتین اور بچوں کو شہید کررہے ہیں۔ مساجد، اسکولوں اور اسپتالوں کو تباہ کررہے ہیں، بیماروں کو مار رہے ہیں، غزہ میں، شام میں اور دیگر مسلم علاقوں میں ایک کے بعد ایک مسلمانوں کا خاتمہ کررہے ہیں لیکن مسلم ممالک کے حکمران خاموش ہیں، مسلم افواج غیر متحرک ہیں۔
قابض یہودی، حماس کے رہنما یحییٰ سنوار تک پہنچ گئے جو ایک بہادر متقی اور پا کیزہ شخص تھے جنہوں نے دو عظیم چیزوں میں سے ایک حاصل کرلی۔ انہوں نے طوفان الاقصیٰ میں بہادری کے ساتھ کم سے کم سامان اور تعدادکے باوجود بھاری بھرکم یہودی وجود کو تھکا دیا اور یہ سب کچھ مسلم حکمرانوں اور مسلم افواج کی مدد اور اعانت کے بغیر کرکے دکھایا۔ جب کہ وہ مسلم حکمران اور مسلم افواج جو فلسطین کے ارد گرد موجود ہیں، اردن، شام، عراق، ترکی اور ایران تک پھیلے ہوئی ہیں ان کا رویہ اور طرزعمل ایسا ہے جیسے یہ معاملہ ان سے متعلق ہی نہیں ہے۔ وہ نہ جانے کس تخیلاتی دنیا میں گم ہیں کہ مسلمانوں پر یہودی وجود کے اتنے ظلم وستم کے بعد بھی خاموش ہیں اور حرکت میں نہیں آرہے ہیں۔
مسلمان سپاہی، انسانیت کے لیے پیدا کی گئی بہترین امت کے سپاہی ہیں پھر کیوں اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف، یہودیوں کی وحشیانہ جارحیت کو ہر روز، یہاں تک کہ دن اور رات کے ہر گھنٹے میں وہ دیکھ رہے ہیں لیکن ان کا خون نہیں کھولتا، وہ جہاد کے لیے میدان میں نہیں اتر رہے۔ کیا وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رحمت، رضا مندی اور ایسی جنتوں کی خوشخبری سننے والوں میں شامل ہونے کی خواہش نہیں رکھتے جو جہاد کرنے والوں کے لیے خاص ہیں، جس میں ان کے لیے ہمیشہ کی خوشی ہے۔ سورہ توبہ کی اکیسویں آیت میں جن نعمت ہائے جاودانی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
کیا اللہ کی آخری کتاب کی یہ آیات ان کو نہیں جھنجھوڑتیں جو ان لوگوں سے لڑنے کا حکم دیتی ہیں جنہوں نے ان کے بھائیوں کو گھروں سے نکالا ہے؟ (اور انہیں قتل کرو جہاں کہیں بھی تم انہیں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا۔) (سورۃ البقرۃ، 2:191) کیا انہیں یاد نہیں ہے کہ اللہ نے دو اچھی چیزوں میں سے ایک چیز جہاد کرنے والے سپاہیوں کے لیے تیار کی ہوئی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: کہہ دو کہ تم ہم پر کسی چیز کے آنے کا انتظار نہیں کر رہے، سوائے دو بہترین چیزوں میں سے ایک کے (یعنی فتح یا شہادت)۔ لیکن ہم اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تمہیں اپنی طرف سے عذاب دے، یا ہمارے ہاتھوں سے عذاب دے۔ تو تم بھی انتظار کرو، ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ التوبہ، 9:52)
عالی مرتبتؐ نے بنو قینقاع، بنو نظیر، بنوقریظہ اور خیبر کے یہودیوں کے بارے میں کیا موقف اختیار کیا تھا، جب وہ فساد میں مبتلا تھے اور زمین میں فساد پھیلا رہے تھے؟ خلفائے راشدین نے اسلام اور مسلمانوں کو کس طرح عزت بخشی؟ انہوں نے اللہ کی راہ میں ایسے جہاد کیا جیسے کہ جہاد کرنے کا حق تھا۔ اللہ ان سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
مسلم سپاہ میں آج بھی بخارا اور سمر قند کے فاتح قتیبہ بن مسلم کی یاد تازہ کرنے والے سپاہی موجود ہیں، ہند اور سندھ کے فاتح محمد بن قاسم اور اندلس کو فتح کرنے والے ابن زیاد موجود ہیں، اموریہ کے فاتح معتصم موجود ہیں، صلیبیوں کو شکست دینے والے اور القدس کو آزاد کرانے والے صلاح الدین ایوبی موجود ہیں۔ پھر وہ کیا چیزہے جس نے مسلم سپاہ کو زنجیر کیا ہوا ہے؟؟
وہ کوئی کمزوری نہیں ہے جس نے امت مسلمہ کے سپاہیوں کو اپنے ان بھائیوں کی مددسے روکا ہوا ہے جہاں پتھر پکار رہے ہیں کہ ہماری مدد کرو۔ اگر تم ہماری مدد کو نہیں پہنچے تو پھر کس قوم اور امت کے سپاہی ہماری مدد کو پہنچیں گے۔ ایسی امت جس کے پاس لاکھوں سپاہی ہیں وہ کیو ں کر کمزور اور بے بس ہوسکتی ہے۔ امت کی سپاہ یہودیوں کے مجرمانہ وجود کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ایسی صلاحیت کہ ان کی صرف روانگی ہی یہودی وجود کو الٹ کررکھ سکتی ہے۔
امت مسلمہ کے سپاہیوں میں نہ عزم کی کمی ہے اور نہ ہی ان سپاہیوں کو موت کا خوف ہے۔ امت میں شہید عامر قاوس اور حسام ابو غزالہ جیسے لاکھوں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر لوگ موجود ہیں جو اللہ عزوجل کی راہ میں موت کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جس طرح دشمن زندگی سے محبت کرتے ہیں۔ یہ مسلم ممالک کے غدار، امریکا اور مغرب کے ایجنٹ حکمران ہیں جنہوں نے مسلم سپاہ کو اپنے ہی بھائیوں کی مدد سے روکا ہوا ہے۔ جو مسلمانوں کے مقابلے میں ان کے دشمنوں کے مددگار ہیں۔ جو یہودی وجود کا سایہ ہیں۔ یہودی ریاست جن کی مرہون منت ہے۔ یہ ختم ہو جائیں تو یہودی وجود بھی ختم ہوجائے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے خاص لوگوں کو عظیم کاموں کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ شہید عامر قاوس اور حسام ابوغزالہ نے امت مسلمہ کو راہ دکھائی ہے کہ اگر وہ اللہ عزوجل سے ملاقات اور آخرت کے دن سرخرو ہونے کی امید رکھتے ہیں تو اپنے حکمرانوں کے حکم کا انتظار کیے بغیر ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بیت المقدس کو آزاد کرانے والے سپاہیوں کے طور پر چن لیا ہے تاکہ زمین اور آسمان کے رہنے والے ان سے راضی ہوں۔
امت محمدیہي اور اس کے سپاہیوں کے شایاں نہیں کہ اسراء کی بابرکت سرزمین کو اپنی مدد اور حمایت سے محروم رکھ کر اپنے آپ کو رسوا کریں۔ امت مسلمہ کے سپاہیوں کے پاس نہ اس سے پہلے کوئی انتخاب تھا نہ اس کے بعد کوئی انتخاب ہوگا۔