اگر یہ درست ہے تو!

216

میرے پیارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا یوں تو ہر نظام ہر شعبہ ہی زوال پزیر ہے مگر عدالتی نظام پستی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ یہاں نظام عدل کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دنیا میں ہماری عدلیہ کا جو مقام ہے وہ قابل فخر نہیں بلکہ شرم سے سر جھکا دیتا ہے۔ برس ہا برس سے لاکھوں مقدمات سماعت اور فیصلوں کے منتظر ہیں۔ نہ جانے کتنے لوگ فیصلوں اور انصاف کے انتظار میں پیشیاں بھگتتے بھگتتے قبروں میں جا دفن ہوئے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر عدالت عظمیٰ کے ججوں کے رویے نے عدلیہ اور ججوں کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملادی ہے عدلیہ اور ججوں پر طاقت وروں کے دباؤ کے خلاف آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک بہت جری جج جسٹس صدیقی کے بیانات کی بازگشت ابھی جاری تھی کہ اعلیٰ ترین عدلیہ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کے دل دہلا دینے والے شرمناک انکشافات سامنے آگئے۔

ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے رجسٹرار عدالت عظمیٰ کو ایک خط کے ذریعے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے متعلق فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت روکنے کے بجائے مزید دروازے کھول دیے۔ خط کو فل کورٹ کے سامنے رکھنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی حدود سے تجاوز پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ریفرنس میں بھی شرکت نہیں کی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں ریفرنس میں بھی شرکت نہیں کروں گا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کا کردار عوام کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے، چیف جسٹس کا کام عدلیہ کا دفاع کرنا ہے جب کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ پر بیرونی دبائو نظر انداز کیا۔ چیف جسٹس کا کردار لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں لکھا کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ عدالتی رواداری و ہم آہنگی کے لیے لازمی احترام قائم کرنے میں ناکام رہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت روکنے کے بجائے اس کے مزید دروازے کھول دیے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے عدلیہ کے دفاع کے لیے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سینئر ترین جج نے الزام عائد کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ میں مداخلت پر ملی بھگت کے مرتکب رہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت پر شترمرغ کی طرح سر ریت میں دبائے رکھا۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی نظر میں عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی قدر و عزت نہیں، چیف جسٹس نے شرمناک انداز میں کہا کہ فیصلوں پر عملدرآمد نہ کیا جائے۔ خط میں انہوں نے لکھا کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججوں میں تفریق پیدا کی، ججوں میں تفریق کے اثرات تا دیر عدلیہ پر رہیں گے۔ انہوں نے موقف اپنایا کہ چیف جسٹس قاضی فائز نے عدلیہ کو کمزور کرنے والوں کو گرائونڈ دیا، جسٹس منصورعلی شاہ کا خط میں مزید کہنا تھا کہ ادارے کو نیچا کرنے کے باجود سمجھا جائے گا کہ ایسا چیف جسٹس عدلیہ کے لیے معزز خدمت گار رہا ہے، میں ایسے چیف جسٹس کے ریفرنس میں شرکت نہیں کرسکتا۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا عدالت عظمیٰ کے اعلیٰ ترین جج کی حیثیت سے جمعہ کو آخری دن تھا اور ان کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے فل کورٹ ریفرنس میں سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ جسٹس ملک شہزاد، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک بھی ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے، خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 پر فل کورٹ میٹنگ تک کسی بھی خصوصی بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کی تھی۔ خط میں جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے موقف اپنایا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے سیکرٹری کو بھیجے گئے 23 ستمبر 2024 کے میرے خط کے مندرجات، میری درخواست کے باوجود، 19 اکتوبر کی میٹنگ کے منٹس میں درج نہیں کیے گئے۔

ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز پر یہ الزامات کوئی صحافی یا کوئی عام آدمی نہیں بلکہ اعلیٰ ترین عدالت کا سینئر ترین جج لگا رہا ہے۔ دنیا کی نظروں میں ہمارے ججوں کا جو مقام ہے پہلے بھی اچھا نہیں تھا اب جسٹس منصور کے الزامات کے بعد اس کی کیا عزت رہ جائے گی۔

گو کہ کسی بھی پاکستانی کو نظام عدل میں بہتری کی کوئی امید تو نہیں ہے پھر بھی کہنے میں کیا حرج ہے کہ نئے چیف جسٹس کے لیے عدالت اور ججوں کی عزت وتوقیر بحال کرنے کے لیے اس میں سوچنے کے لیے اور کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ایک اہم سوال ہے کہ کیا چیف جسٹس پر عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج کے ان سنگین الزامات کی کوئی تحقیقات ہوں گی یا نہیں؟ کیا ریٹائرڈ چیف جسٹس قاضی فائز اپنے اوپر لگے ان الزامات کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کریں گے؟