آئین کے نکات منصفانہ نہیں ہیں

180

ایک شاطر مولانا کی قیادت میں آئینی ترامیم کا جو ڈراما رچایا گیا اُس ڈرامے کو کتنے لوگوں نے پسند کیا اُس کی گنتی پارلیمان کے اراکین ہی بہتر طَور پر جانتے ہوں گے۔ پاکستانی قوم گزشتہ دو ڈھائی برس سے فزوں تر مہنگائی اور علاج معالجے سے محرومی کا جس انداز میں شکار ہوتی چلی جارہی ہے مولانا کے کورچشم ہونے کے باعث اُن کی توجّہ اُس طرف تو نہ گئی وہ ا لبتّہ شہ بالا کی شکل بناکر اور حرام وحلال کی تمیز کیے بغیر کبھی ظہرانہ اور کبھی عشائیہ کھاتے ہوئے نظر ضرور آتے رہے۔ مولانا موصوف نے آئینی ترمیم کو اِس انداز میں اہمیت دی ہے جیسے اُن کی اکلوتی اولاد خدا نخواستہ جاں بلب ہو اور وہ اُس کی زندگی بچانے کے لیے پیج وتاب کھا رہے ہوں۔ مولانا اور اُن کے ساتھیوں نے آئین کے جن نکات کا نوک پلک سنوارنے کی کوشش کی ہے‘ آئیے آئین کے اُن نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔

سب سے پہلے تو آئین میں یہ نکتہ ڈلوایا گیا ہے کہ پاکستانی قوم کو صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کا ’حق حاصل‘ ہوگا۔ ’حق حاصل‘ کے بجائے اگر یہ لکھا جاتا کہ ’فراہم کیا جائے گا‘ اور اِس نکتے پر ہنگامی انداز میں عملدرآمد کرنے کی تاریخ بھی لکھ کر یقین دہانی اگر کروادی جاتی تو پاکستانی قوم کو اپنے حکمرانوں کے دانشور اور قوم سے مخلص ہونے کا تاثّر ملتا۔ دوسری ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ایک عرصہ دراز سے حق ِ حکمرانی کا دعویٰ کرنے والوں کو آج سے پہلے یہ معلوم نہ تھا کہ ماحول کو صاف، صحت مند اور پائیدار رکھنا حکمرانوں کی ذمّہ داری ہے جبکہ یہ عوام کا حق ہے۔ مولانا ایک عرصہ دراز سے حکومت کا حصّہ بنے ہوئے ہیں اور وہ اب تک یہ نہ جان سکے کہ پاکستان کی قوم کو صاف پانی تو بہت دُور کی بات ہے اُنہیں گدلا پانی بھی آسانی سے میسّر نہیں ہے اور نہ اُسے صحت مند رہنے کے مواقع حاصل ہیں۔

نکتہ نمبر ۳۸ ایف میں یقینی انداز میں یہ تحریر کیا گیا ہے کہ یکم جنوری ۲۰۲۸ء سے قبل سُودی نظام کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ یاد رہے کہ شریعت کورٹ نے ۱۹۹۱ء میں سُودی نظام کو ختم کرنے کا حکم دے رکھا تھا، اُس وقت نوازشریف کی حکومت تھی جن کی کابینہ نے اِس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کردی۔ عدالت عظمیٰ نے اِس مقدمے پر حیلے کا دھبّہ لگا کر نظرثانی کرنے کے لیے شریعت کورٹ کو ہدایت دے دی تھی بعد ازاں شریعت کورٹ نے ۲۰۲۲ء میں اپنے حکم پر عملدرآمد کرنے کا حکم صادر کردیا تھا جو تاحال شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا تھا۔ حکمران فی الواقع سُودی نظام ختم کرنے کے حوالے سے اگر مخلص ہوتے تو وہ نااہل اور بے ایمان ججوں کی طرح تاریخ پر تاریخ ڈالنے کے بجائے جَلد ازجَلد مالیاتی ماہرین اور قابل علما کا اجلاس طلب کرکے اِس اہم مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے۔ قائد مولانا کے ہاتھ پاؤں دباکر اُن کی رضامندی حاصل کرکے حکمرانوں نے اِس اہم مسئلے کو یکم جنوری ۲۰۲۸ء تک کے لیے موخر کروادی ہے۔

نکتہ ۴۸ شِق ۴ کے تحت قوم کو یہ حکم نامہ سنایا جارہا ہے کہ کابینہ یا وزیر ِاعظم صدرِ مملکت سے اپنی جس کسی بھی خواہش کا اظہار کرے گا یا اُسے کوئی مشورہ دے گا اُس کی چھان پھٹک اور تحقیقات یا معلومات حاصل کرنے کا اختیار بشمول عدلیہ اور کسی بھی ادارے کو حاصل نہ ہوگا۔ اِس کا مطلب تو یہی ہُوا کہ پاکستان کا یہ اتحادِ ثلاثہ یعنی کابینہ، وزیر ِاعظم اور صدر، پاکستانی قوم یا اُس کے اثاثوں کو فروخت کرنے میں آزاد ہوجائے گا۔ صدر اور وزیر ِاعظم جس کسی کو جب چاہے گا اپنے راستے سے ہٹا دے گا اور اُس کی کوئی پُرسش نہ ہوگی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آئین میں اِس اہم ترمیم کے تحت حکمرانوں کو اپنے مخالفین کو غائب اور تائب کرنے کا نسخہ حاصل ہوگیا ہے۔

آرٹیکل ۸۱ شق ب میں فرمایا گیا ہے کہ ’’جُوڈیشل کمیشن آف پاکستان‘‘ لکھنے کے بجائے ’’سپریم جُوڈیشل کونسل‘‘ لکھا جائے۔ اِس جملے سے لفظ ’’پاکستان‘‘ حذف کرنے میں کیا راز پوشیدہ ہے یہ بات شاید بنی اسرائیل کے زمانے کا کوئی جادوگر بتلادے مگر اُس جادوگر کو ڈُھونڈ کر کہاں سے لایاجائے۔ آئین اور قانون کے طالب علم کے سامنے اگر ’’سُپریم جوڈیشل کونسل‘‘ کا ذِکر اگر کیا جائے گا تو کیا طلبہ کی طرف سے یہ سوال نہیں اٹھایا جائے گا ’’کہاں کا سپریم جوڈیشل کونسل‘‘ دوسری اہم بات یہ بھی قوم کو بتلایا جائے کہ ’’کمیشن‘‘ اور ’’کونسل‘‘ یہ دونوں انگریزی کے الفاظ ہیں اُردو زبان میں اِن دونوں لفظوں کا متبادل کیا ہے اور یہ بھی کہ اِن دونوں لفظوں کی اصلیّت اور ماہیّت کیا ہے۔ لفظ ’’کمیشن‘‘ ختم کرنے اور اُس کی جگہ لفظ ’’کونسل‘‘ منتخب کرنے کا سبب کیا ہے۔ کمیشن کے اختیارات وفرائض کیا ہیں اور کونسل کے دائرہ کار میں کیا ذمّہ داریاں ہیں۔ یہ باتیں ہمیں اِس بنا پر دریافت کرنے کا حق حاصل ہے کیوں کہ ہم ایک جمہوری مُلک کے باشندے ہیں اور جمہور کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اُس کے حکمران اُسے کن قوانین کا پابند کرنا چاہتے ہیں۔

آرٹیکل ۱۱۱ میں ایڈوکیٹ جنرل کی معاونت کے لیے اُس کے ساتھ ایک مشیر کو بھی نتھی کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے، یہ بیان نہیں کیا جارہا ہے کہ وہ معاون کوئی وکیل ہوگا یا پارلیمان کا کو ئی ایک رُکن ہوگا یا ایڈوکیٹ جنرل کا کوئی بھائی، بھتیجا یا اُس کا بیٹا بھی مشیر ہوسکتا ہے۔ اِس نکتے کی وضاحت بہت ضروری ہے۔

سب سے اہم بات جو قوم کے لیے پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ آئینی بینچ کی تشکیل اگر کردی جائے گی تو مقدمہ کنندگان شاید سمجھ لیں کہ وہ اپنے مقدمے کی کارروائی کس بینچ اور کس کمرے میں جاکر دیکھ پائیں گے۔ لیکن غیر آئینی مقدمہ سننے والے جج کہاں بیٹھیں گے اِس حوالے سے مدعی اور مدعا علیہ کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔