لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) علما برائی کے خلاف مزاحمت پر آمادہ نہیں کیونکہ یہ ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے ‘ ریاست کی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے محراب و منبر سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ غیر موثر ہو کر رہ گیا ہے‘ لادین سیاست کے چسکے نے سب کچھ بھلا دیا‘ علما کرام فرقہ ورانہ اختلافات میں وقت ضائع کرتے ہیں ‘ مدارس میں برائی کے خلاف مزاحمت کا سبق نہیں پڑھایا جاتا۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر، جمعیت طلبہ عربیہ کے سابق منتظم اعلیٰ مولانا محمد جاوید قصوری، ختم نبوت کے ممتاز مبلغ، مجلس احرار اسلام کے نائب امیر مولانا عبداللطیف خالد چیمہ اور معروف دینی دانشور، کئی کتب کے منصف پروفیسر ڈاکٹر اختر عزمی نے جسارت کے اس سوال جواب کیا کہ ’’علما اسلامی احکامات کے مطابق برائی کی مزاحمت پر کیوں آمادہ نہیں؟‘‘ مولانا محمد جاوید قصوری کا کہنا تھا کہ ہمارا المیہ ہے کہ علما کے طبقے میں برائی کے خلاف مزاحمت کا اسلامی تصور واضح نہیں‘ وہ مسلکی معاملات پر لڑائی میں تو سر دھڑکی بازی لگا دیتے ہیں مگر برائی کی مزاحمت کا تصور اور فکر علما میں پائی ہی نہیں جاتی، ملک میں موجود مذہبی جماعتیں اور ان کے قائدین دین اور مذہب کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں‘ جماعت اسلامی کے سوا تمام مذہبی جماعتیں دین کے جامع تصور کے بجائے محدود مسلکی اور فرقہ ورانہ سوچ سے باہر نکلنے پر تیار نہیں‘ وہ عوام کے حقیقی مسائل سے بھی آگاہ ہیں نہ انہیں سمجھنا چاہتی ہیں‘ مذہبی جماعتیں اور رہنما مخصوص فقہی مسائل اور خاندانی سوچ و فکر میں الجھے ہوئے ہیں‘ دین کے جامع تصور کو سمجھنے اور وقت کے چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھنے والی قیادت کا علما اور مذہبی طبقے میں فقدان ہے، چنانچہ برائی کی مزاحمت نہ ان کی سوچ و فکر کا محور ہے نہ ترجیحات میں شامل ہے۔مولانا عبداللطیف خالد چیمہ نے رائے دی کہ علما کرام میں برائی کے مد مقابل مزاحمتی کردار دن بدن مفقود ہوتا جا رہا ہے‘ لا دین سیاست کے چسکے نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہمیں بھلا دیا ہے، لادین سیاست جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے اس کے منفی اثرات معاشرے میں پھیل رہے ہیں اور تیزی سے پھیلتی برائیوں کی مزاحمت سے مسلسل صرف نظر کیا جا رہا ہے‘ ضرورت ہے کہ اصلاح احوال اور عقائد کی درستی پر توجہ دی جائے‘ ریاست کو اسلامی احکامات کے تابع کیا جائے کیونکہ جو علما کرام محراب و منبر سے تھوڑی بہت کوشش برائی کو روکنے کے لیے کرتے ہیں‘ وہ ریاست کی طاقت کی سرپرستی نہ ہونے کے باعث غیر موثر ہو جاتی ہے‘ عالمی سطح پر جاری ثقافتی کشمکش میں بھی برائی کے فروغ کے لیے بے پناہ وسائل خرچ کیے جا رہے ہیں جس کے اثرات بھی یقیناً مرتب ہو رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اختر عزمی نے موقف اختیار کیا کہ علما کی تعلیم و تربیت جس ماحول میں کی جاتی ہے اس میں انہیں برائی کے خلاف مزاحمت کا سبق پڑھایا ہی نہیں جاتا‘ تمام مکاتب فکر کے مدارس کا رویہ اس ضمن میں یکساں ہے‘ غیر ضروری مسلکی مسائل اور فرقہ ورانہ اختلافات ان کے لیے اہمیت رکھتے ہیں انہی پر وہ اپنا وقت ضائع کرتے ہیں‘ برائی کے خلاف مزاحمت ان میں سے کسی کی بھی ترجیح نہیں ہے، نہ انہیں اس کا احساس و ادراک ہے چنانچہ علما کی جانب سے برائی کی مزاحمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔