شرحِ پیدائش گرنے سے چین میں ہزاروں کنڈر گارٹن اسکول بند

168

قدرت کے نظام سے چھیڑ چھاڑ کے جو نتائج نکل سکتے ہیں وہ نکلتے ہی ہیں۔ دنیا بر میں اللہ کی طے کردہ حدود سے تجاوز کی صورت میں لوگوں کو طرح طرح کی الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ ایک زمانے سے آبادی کا رونا رویا جارہا ہے اور اس حوالے سے بہت سے منصوبے رو بہ عمل رہے ہیں مگر اب اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ قدرت کے نظام میں دخل دینے کے مترادف ہے اور اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔

چین کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ اُس کی اور بھارت کی آبادی آس پاس ہے۔ چین کی حکومت نے ایک زمانے تک فی گھرانہ ایک بچہ کی پالیسی اپنائی اور اب اس کا نتیجہ بھی بھگت رہی ہے۔ چین میں شرحِ پیدائش گر رہی ہے۔ تین برس کے دوران چین میں شرحِ پیدائش کم و بیش 12 فیصد گری ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے شعبے شدید متاثر ہوئے ہیں۔

چین کے اسکولوں میں کنڈر گارٹن میں انرولمنٹ 11.55 فیصد گری ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں ہزاروں کنڈر گارٹن اسکول بند کیے جاچکے ہیں۔ پرائمری اسکولوں کی تعداد میں بھی 5645 کی کمی واقع ہوچکی ہے۔

چین کے سرکاری محکمہ اعداد و شمار نے بتایا ہے کہ 2023 کے دوران چین کی آبادی میں 20 لاکھ سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔ حکومت کے لیے یہ صورتِ حال انتہائی پریشان کن ہے۔ متعلقہ ماہرین نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ معاملات درست نہ کیے گئے تو معاشرتی سطح پر غیر معمولی نوعیت کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ چینی حکومت فی گھرانہ ایک بچہ کی پالیسی ترک کرچکی ہے مگر لوگوں میں اب شادی کرنے اور فیملی شروع کرنے کے حوالے سے جوش و جذبہ نہیں رہا۔ چین کی نئی نسل دیر سے شادی کر رہی ہے اور بچے پیدا کرنے میں دلچسپی بھی برائے نام رہ گئی ہے۔ جاپان کی طرح چین میں بھی زندگی بسر کرنے کی بڑھتی ہوئی لاگت بیشتر نئے گھرانوں کو بچوں کی طرف جانے سے روک رہی ہے۔