یحییٰ سنوار: شہادت قبول آزادی سے دستبرداری نہیں

312

نہ جانیں یہ لوگ کس سیارے سے ہماری دنیا میں آئے کہ ان کو زندگی سے زیادہ موت پسند ہے۔ وال اسٹریٹ جنرل اور یروشلم پوسٹ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو یہ گمان تھا کہ یحییٰ سنوار کو مار کر وہ حماس کی تحریک کو ختم کرسکتے ہیں تو وہ اب تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ مزاحمت، قیادت کے بجائے ڈھائے جانے والے مظالم سے مضبوط ہوتی ہے۔ اس موقع پر فلم ’’زرقا‘‘ میں میجر ڈیویڈ نامی کردار کا یہ جملہ یاد آ گیا کہ عرب جیسی بزدل قوم میں زرقا جیسی بہادر لڑکی کہاں سے پیدا ہوگئی۔ آج یہی جملہ یحییٰ سنوار پر فٹ آرہا ہے۔ جب پورا عالم عرب گھروں میں دبک کر بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے تو یحییٰ سنوار حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ عالم عرب کے چراغوں کو اپنے لہو سے روشن کر رہے ہیں۔

ایک درجن سے زائد اخبارات کے مطابق تین عرب ملکوں سے اسرائیل نے کہا تھا کہ یحییٰ سنوار اور ان کے خاندان کو محفوظ رستہ فراہم کیا جائے گا اور وہ غزہ سے نکل جائیں لیکن جہاں تک یحییٰ سنوار کی بات ہے وہ تو یہی انجام تھا کہ ان کے جسم کی بوٹی بوٹی الگ کر دی جائے لیکن وہ فلسطین کی آزادی سے ہرگز دستبر دار نہیں ہوسکتے تھے۔ اسرائیل کی جانب سے محفوظ راستے کی پیشکش کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ’اسرائیل مجھے سب سے بڑا تحفہ قتل کرکے دے سکتا ہے۔ میں کورونا وائرس، اسٹروک یا ہارٹ اٹیک سے مرنے کے بجائے ایف 16 طیارے کی بمباری سے شہید ہونے کو ترجیح دوں گا‘۔ اللہ نے یحییٰ سنوار کو یہ سب کچھ دے دیا جس کی انہیں خواہش تھی، اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل اپنے ناپاک مقاصد میں ناکام ہوکر تاریخ کے تاریک گوشوں میں کب گم ہوتا ہے۔

زندگی کی طرح یحییٰ سنوار کی شہادت بھی مصائب کے خلاف مزاحمت کی عکاس تھی۔ وہ 1962ء میں خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے جہاں نکبہ کے دوران ان کا خاندان اپنے گھر عسقلان سے نقل مکانی کرکے پناہ حاصل کیے ہوئے تھا۔ یحییٰ سنوار نے 1987ء میں حماس کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی اس میں شمولیت اختیار کرلی اور داخلی سیکورٹی ونگ کے اہم رکن کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے۔

یحییٰ سنوار جاسوسوں اور مخالفین کے سہولت کاروں کی شناخت کرنے میں مہارت رکھتے تھے اور اس کے لیے وہ اکثر اوقات سخت طریقہ کار اختیار کرتے تھے۔ ان کے بنائے گئے نظام کی پائیداری اس سے بھی ثابت شدہ ہے کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود اسرائیل کی انٹیلی جنس اب تک غزہ کی پٹی میں یحییٰ سنوار سمیت حماس کے دیگر اہم رہنماؤں کی نقل وحرکت کو بے نقاب کرنے میں مشکل کا سامنا کررہی ہے۔ اور جب وہ یحییٰ سنوار کو شہید کرنے میں کامیاب ہوگئے تب بھی اسرائیل نے بذات خود اعتراف کیا کہ اسرائیلی افواج کا ان سے ٹکرا جانا محض ایک اتفاق تھا۔ 23 سال مسلسل جیل نے مجاہد کے لیے ایک تربیتی مرکز کے طور پر کام کیا، برسوں بعد یحییٰ سنوار نے اپنے سپورٹرز کو بتایا، ’وہ چاہتے تھے یہ جیل ہماری قبر بن جائے جہاں وہ ہمارے حوصلوں اور عزائم کو کچل سکیں۔ لیکن ہم نے جیل کو اپنے لیے عبادت گاہوں اور مطالعے کے لیے اکیڈمی میں تبدیل کردیا‘۔ یہ محض کھوکھلی باتیں نہیں تھیں۔ یحییٰ سنوار نے جیل میں گزارے جانے والے عرصے میں عبرانی زبان پر عبور حاصل کیا اور ساتھ ہی وہ مشاہدہ کرتے رہے کہ اسرائیل کی سیکورٹی فورسز کیسے کام کرتی ہیں بالخصوص بدنامِ زمانہ داخلی سیکورٹی ونگ شن بیٹ کس طرح کام کرتا ہے، اس پر غور کیا اور حاصل کردہ معلومات کا بہترین انداز میں استعمال کیا۔ یحییٰ سنوار جو برسوں سے اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر تھے، غزہ میں ہی مقیم تھے، ایک مجاہد کے طور پر اپنے لوگوں کے ساتھ ساتھ رہے اور 7 اکتوبر کے بعد اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والے اپنے گھر کے ملبے کے درمیان کرسی پر بیٹھے نظر آئے۔ حیرت انگیز طور پر اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی وہ ایسے ہی ایک صوفے پر بیٹھے تھے۔

اسرائیل سمیت پورا عالم ِ کفر یہی کہہ رہا ہے وہ مذاحمت کے بغیر شہید ہو گئے لیکن زمینی کارروائی کے دوران اسرائیلی افواج سے سامنا ہونے پر یحییٰ سنوار اور ان کے تین محافظوں نے ایک عمارت میں پناہ لی۔ اسرائیل کے مطابق یحییٰ سنوار نے قریب آنے والے سپاہیوں پر دستی بموں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک اسرائیلی فوجی شدید زخمی ہوا۔ عمارت میں داخل ہوکر بات کرنے سے انکاری اسرائیلی فوج نے عمارت کو ٹینک سے نشانہ بنایا جس میں یحییٰ سنوار شدید زخمی ہوئے اور ان کا دایاں بازو کٹ گیا۔ اس کے بعد اسرائیل نے ڈرون بھیجا۔ ان کے محافظ شہید ہوچکے تھے اور جیسا کہ ڈرون فوٹیج نے دکھایا، یحییٰ سنوار زخمی حالت میں سر پر کوفیہ باندھے صوفے پر براجمان تھے۔ ان کا بایاں بازو جو اس وقت حرکت کرنے کے قابل تھا، انہوں نے اس بازو سے مزاحمت کی آخری کوشش کے طور پر قریب آنے والے اسرائیلی ڈرون پر چھڑی پھینکی جوکہ ٹیکنالوجی کے ذریعے کیے جانے والے ہولوکاسٹ کے خلاف مزاحمت کی ایک انسانی کوشش تھی۔ یہ سب ہونے کے بعد بھی انہیں شہید کرنے کے لیے ایک اسنائپر شوٹر کی ضرورت پیش آئی۔

ان کی شہادت نے اسرائیل کے بہت سے جھوٹے دعووں کا پردہ چاک کر دیا۔ اسرائیل نے دنیا کو بتایا کہ یحییٰ سنوار غزہ سے فرار ہوچکے ہیں اور کسی دوسرے ملک میں چھپے ہیں جبکہ ان کے ہم وطن مصائب کا سامنا کررہے ہیں۔ اسرائیل یہ بھی کہتا رہا کہ وہ ایک خاتون کے بھیس میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یحییٰ سنوار کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا کہ اسرائیل نے اب تک انہیں اس لیے نشانہ نہیں بنایا کیونکہ وہ زیرِ زمین سرنگوں میں خودکش جیکٹ پہن کر اسرائیلی یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔

یحییٰ سنوار کی فوٹیج جاری کرنے کے پیچھے اسرائیل کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو یحییٰ سنوار کی لاچارگی دکھائی جائے اور مزاحمت کے حوالے سے ناامیدی ظاہر کی جائے تو اس مقصد میں وہ بری طرح ناکام ہوا ہے کیونکہ عالم ِ اسلام میں اس سے بالکل الٹ تاثر گیا۔ اب دنیا بھر کے اخبارات یہی لکھ رہے ہیں کہ یحییٰ سنوار محاذ پر موجود تھے اور رفح میں اسرائیلی افواج سے چند میٹرز کی دوری پر تھے۔ ان کی آخری لمحات کی ویڈیو جاری کرکے اسرائیل نے یقینی بنایا کہ ان کی بہادری کی داستان امر ہوجائے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو صہیونیت سے ہمدردی رکھتے ہیں، انہوں نے بھی فوٹیج جاری کرنے کے اقدام پر سوال اٹھایا لیکن میرے نزدیک ایسا اس لیے ہے کیونکہ اسرائیل اب تک ان لوگوں کی ذہنیت کو سمجھنے سے قاصر ہے جنہیں وہ تقریباً ایک صدی سے ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر مٹانے کوشش کر رہا ہے اور وہ اس میں مکمل طور سے ناکام ہے۔