چھبیسویں ترمیم: افراتفری کا حل کہاں اور کس کے پاس ہے

308

شاعر کا کہنا ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا

ترقی کے جو دروازے ہم نے اپنے اوپر بند کر لیے ہیں، انہیں کھولنے اور اپنی حالت کے بدلنے کا ہمیں جب جب خیال آتا ہے ہماری حکومتیں آئین کا حلیہ بدلنے سے اس کا آغاز کرتی ہیں۔ آئین پاکستان اور ترامیم کا ذکر ایک سانس میں کرنا اس بات کی علامت نہیں کہ ہمیں سانس لینے میں کچھ دشواری ہے، اس بات کی نشانی بھی نہیں کہ اس ذکر کے دوران ہم خون کے گھونٹ پی رہے ہیں بلکہ مقصود اس یکجائی سے یہ ہے کہ حکومت کی بقا کے لیے جن باغیوں کو کمرے سے اٹھاکر باہر پھینکنا ضروری ہے، دلنواز آئینی کور کے ساتھ انہیں باندھ کر ایک کونے میں ڈھیر کردیا جائے تاکہ وہ کار سرکار میں مداخلت نہ کرسکیں۔

26 ویں آئینی ترمیم کے بعد حکومت کو اپنا من پسند چیف جسٹس منتخب کرنے کا اختیار مل گیا، عدالت عظمیٰ کے سوموٹو نوٹسز کی ولادت کو بریک لگ گئے، آئینی معاملات کے لیے حکومت کے منتخب کردہ آئینی بنچ کی تشکیل جیسے معاملات آئین کا حصہ بن گئے، ایک ترمیم میں اتنے بکھیڑے نمٹ گئے حکومت کے اس ہنر کا اعتراف نہ کیا جائے تو کیا کیا جائے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ، سیاسی قیادت اور عدلیہ کے درمیا ن کئی سال سے جاری طاقت کی لڑائی ہے جس میں فی الحال عدلیہ پسپا ہوئی ہے۔ یہ نہ ختم ہونے والی لڑائی ہے۔ موقع ملنے پر اعلیٰ عدالتیں اس ترمیم کو عدلیہ کی آزادی میں مداخلت قرار دے کر مسترد کرسکتی ہیں جس کے جواب میں پارلیمنٹ دوتہائی اکثریت سے نئے توازن بنانے کی کوشش کرتی رہے گی۔ جن کی بھلائی کے نام پر یہ لڑائی لڑی جارہی ہے عوام کا اس لڑائی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ انہیں پہلے ہی کار سرکار سے کان پکڑ کر باہر نکالا ہوا ہے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔

جمہوریت میں ’’عوامی اکثریت‘‘ ہر آئینی شق، ہر اصول اور ضابطہ بندلنے کا اختیار ترازو کو اپنے ہاتھ میں لینے اور من پسند باٹ استعمال کرنے کا وہ اختیار ہے جس سے فساد کے دروازے ہی نہیں مرکزی گیٹ کھولنے کا اختیار اپنے مفاد میں طاقتور اشرافیہ کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ اسی طاقت کی عطا تھی کہ پارلیمنٹ نے این آر او کے ذریعے چوروں اور لٹیروں کی چوریوں اور لوٹ مار کو قانوناً معاف کردیا تھا، ڈکٹیٹروں کے بزور طاقت جبراً قبضے کو قبول کیا، اشرافیہ کے لیے بار بار ایمنسٹی اسکیمیں منظور کی گئیں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کو آئینی استثنا مہیا کیا گیا۔ یہی آئین اور قانون ہے جو اہم ترین فوجی اور عدالتی عہدیداروں پر تنقید کو جرم قرار دیتے ہوئے ان کے احتساب کا راستہ بند کرتا ہے۔ طاقتوروں اور بشمول ارکان پارلیمنٹ کی مراعات میں مسلسل اضافے کی منظوری دیتا ہے۔

اکثریت کے ذریعے قانون سازی کے اس اختیار کو استعماری طاقتوں نے بھی کھل کر استعمال کیا۔ ملک کو سودی قرضوں کے جال میں ڈبونے والے آئی ایم ایف کے مطالبات کو منظور کیا گیا، ایک لفظ منہ سے نکالے بغیر FATF کے کہنے پر جہاد کو دہشت گردی اور اس کی مدد و حمایت کو جرم قرار دیا گیا، امریکی دہشت گردی کی جنگ کو قانونی شکل دی گئی اور لبرل اقدار کو قوانین کا روپ دیا گیا۔ جب تک پارلیمنٹ کے پاس یہ اختیار رہے گا، قانون سازی اشرافیہ کے گھر کی لونڈی بنی رہے گی، اور قوانین موم کی ناک۔

اس طریق پر سورہ مائدہ میں اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: اور ان کے درمیان اس چیز سے حکومت کرو جو اللہ نے نازل کر دیا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی مت کرو۔ کہ کہیں یہ تمہیں اس حق سے ہٹا نہ لیں جو تم پر نازل ہوئی ہے۔ (سورۃ المائدہ، 5:48)

اسلام نے انسانیت کو جو نظام دیا ہے اس میں حکومت کا ڈھانچا، حاکم، رعایا اور دیگر عہدیداروں کی طاقت اور اختیارات کا تعین قرآن وسنت سے پہلے سے طے شدہ ہے جو ناقابل تبدیل ہے۔ طاقتور سے طاقت ور حاکم اور پارلیمان کو بھی اس میں تبدیلی کا اختیار نہیں سوائے سر جھکانے اور تسلیم کرنے کے کیونکہ یہ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ کے احکامات ہیں۔

مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ راشد سیدنا علی ؓ خلافت کی عدالت میں چوری شدہ زرہ کا مقدمہ ایک یہودی سے ہار گئے تھے کیونکہ ان کے پاس شرعی طور پر قابل قبول گواہ موجود نہیں تھا اور نہ ہی وہ ثبوت سے متعلق آفاقی قوانین میں ترمیم لانے کے مجاز تھے۔ ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں اس واقعے کو روایت کیا ہے کہ قاضی شریح نے خلیفہ علی سے پوچھا، یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ہَلْ مِنْ بَیِّنَۃٍ؟ اے امیر المومنین، کیا آپ کے پاس گواہ ہے؟ سیدنا علیؓ نے جواب دیا: مَا لِی بَیِّنَۃٌ، میرے پاس گواہ نہیں ہے۔ تو قاضی شریح نے یہودی کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر وہ یہودی مسلمان ہوگیا، اپنی غلطی تسلیم کی اور کہا، أَمَّا أَنَا فَأَشْہَدُ أَنَّ ہَذِہِ أَحْکَامُ الْأَنْبِیَائِ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ قَدَّمَنِی إِلَی قَاضِیہِ وَقَاضِیہِ یَقْضِی عَلَیْہِ، جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں شہادت دیتا ہوں کہ یہ رسولوں کا فیصلہ ہے۔ مومنین کے امیر مجھے خود قاضی کے پاس لے کر گئے اور قاضی نے ان کے خلاف فیصلہ کر دیا۔

اسلام کا حکومتی نظام متوازن، مستحکم، اندرونی خلفشار اور سیاسی افراتفری سے پاک ہے، جس میں جمہوری حکومتوں کی طرح طاقت کی رسہ کشی اور کھینچا تانی موجود نہیںہے۔ مسلم دنیا میں جمہوریت کے نفاذ کے بعد امت مسلسل عدم استحکام اور استعماری ایجنٹوں کے نرغے میں ہے۔ یہ ایلیٹ کیپچر کا نظام ہے۔ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کو اسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے ہیں کیونکہ اسلام میں ریاست اور دین، مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے مددگار اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔ ماوردی کہتے ہیں جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑجاتی ہے اور جب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑجاتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ اس ضمن میں فرماتے ہیں:

’’اسلامی حکومت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کی پوری عمارت خدا کی حاکمیت کے تصور پر قائم کی گئی ہے۔ اس کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ ملک خدا کا ہے۔ وہی اس کا حاکم ہے۔ کسی شخص یا خاندان یا طبقہ یا قوم کو بلکہ پوری انسانیت کو بھی حاکمیت Sovereignty کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ حکم دینے اور قانون بنانے کا حق صرف خدا کے ساتھ خاص ہے۔ حکومت کی صحیح شکل اس کے سوا کوئی نہیں کہ انسان خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے کام کرے‘‘۔ (اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے)