26 ویں ترمیم منظور ہوگئی۔ اس ترمیم کے بعد 5 رکنی بنچ کا سربراہ چیف جسٹس عدالت عظمیٰ سے زیادہ طاقتور ہوگا۔ آرٹیکل 184 کے تمام مقدمات آئینی بنچ سنے گا۔ عدالت عظمیٰ صرف عام لوگوں کے فوجداری اور دیوانی مقدمات کی اپیلیں سنے گی۔ غالباً حکومت کی منشا بھی یہی ہے کہ عدالت عظمیٰ عوام کو انصاف دے اور آئینی بنچ خواص کے معاملات کو دیکھے، اس فیصلے کے بعد وہ خطرہ ٹل گیا جو حکومت کے سر پر منڈلا رہا تھا جس کی طرف وزیر دفاع خواجہ آصف نے متوجہ کیا تھا کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ قاضی کے بعد جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس پاکستان بن گئے تو انتخابات میں دھاندلی سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست پر 2024ء کے الیکشن کو کالعدم قرار دے کر حکومت کو گھر بھیج سکتے ہیں۔ اس شبہے کو تقویت یوں بھی ملی کہ مخصوص نشستوں کے سلسلے میں پی ٹی آئی فریق بھی نہ تھی مگر جسٹس منصور علی شاہ اور ان کے 8 ہم خیال جج صاحبان نے یہ تمام مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم صادر کردیا۔ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی فارم 47 کی جعلی اسمبلی اور حکمرانوں کے درد مشترک نے یہ ضروری جانا کہ جج صاحبان کی اس چین سبوتاژ کیا جائے اور چیف جسٹس پاکستان کا تقرر زینہ بہ زینہ کرنے کے بجائے فوج کے اصول کے مطابق یوں ہو کہ تین سینئر ترین ججوں کے نام بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کے حضور پیش ہوں جو دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کے نام پر اتفاق کرے، اس کمیٹی میں بارہ ممبر ہوں گے جن میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے نصف نصف ارکان ہوں گے۔ کچھ حلقے قرعہ جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام نکلنے کی پیش گوئی کررہے ہیں جو ماضی کے طریقے کار کے مطابق ان کا چیف جسٹس پاکستان بننے کا نمبر 2030ء میں آنا تھا۔ اب تقرر میں چھانٹ اور پرکھ کی ڈگر پر پارلیمانی کمیٹی کے سپرد ہوگئی تو حضرت مولانا فضل الرحمن اس کو کالے سانپ کے دانت توڑنے اور زہر نکالنے کی بات کرکے خوش ہورہے ہیں کیونکہ وہ پی ڈی ایم کے پیش امام بھی تو ہیں۔ اور اب وہ بلاول کو وزیراعظم اور خود صدر مملکت بننے کا خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔ فارم 47 کی بدہضمی کے خواب سبوتاژ بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر مطلوب و مقصود چیف جسٹس پاکستان بننے سے یحییٰ آفریدی انکار کردیتے اور کہتے کہ اس بکھیڑے میں پڑنا نہیں چاتا تو پھر جسٹس امین الدین چوتھے نمبر پر ہیں کایہ منصب سنبھالتے جنہوں نے مخصوص نشستوں کے کیس میں منصور علی شاہ سمیت آٹھ ججوں کے فیصلے کے خلاف پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سب سے سخت اضافی نوٹ لکھے تھے۔
خواجہ آصف نے پارلیمنٹ کا دفاعی حصار 26 ویں ترمیم کو یہ کہہ کر قرار دیا کہ ہمارا پارلیمانی جمہوری نظام عدلیہ کی یرغمالی سے آزاد ہوگا وہ اس فیصلے سے خوشی کے مارے پھولے نہیں سمارہے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے فرمایا کہ چیف جسٹس کا تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر نہ ہوگا اب عدلیہ پر حکومت کا کنٹرول ہوگا۔ لیاقت بلوچ نے اس عمل کو عدالت سے کھلواڑ قرار دیا اور کہا کہ آئین کو متنازع نہ بنائیں اور نظر نہ آنے والی قوتیں سیاسی جماعتوں کو اکٹھا بٹھادیتی ہیں۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ملک سیاسی، معاشی بحران کے ساتھ آئینی بحران کا بھی شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔ اللہ خیر کرے، شر سے وہی خیر نکالنے والا ہے۔
پھر مجھے یاد آرہا ہے وہ دور جب اسلامی بلاک کے نام پر مشرقی پاکستان کی جدائی کو قانونی حیثیت دے دی گئی، جی ہاں یہ مارچ 1974ء کا تذکرہ ہے۔ متحدہ پاکستان کے لیے ہونے والے 1970ء کے انتخابات میں اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کا حصہ مملکت سے کاٹ کر بنگلا دیش کی صورت شیخ مجیب الرحمن کے حوالے کیا جاچکا ہے یہ لو مزے کرو۔ نئے پاکستان پر ذوالفقار علی بھٹو تلوار تھامے برسراقتدار آئے، 1973ء کا آئین باہمی اتفاق رائے سے منظور کیا جاچکا ہے تو اب تیاریاں ہیں پاکستان میں او آئی سی کے تحت اسلامی سربراہ کانفرنس کی، عوام الناس کی توجہ ہے 57 اسلامی ممالک کی طرف ہے جو مرہم بننے آرہے ہیں۔ سندھی زبان کی کہاوت کے مطابق حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھانے اور اس وقت کو ہاتھ سے نہ جانے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہے وہ حکومت جس کی غیر قانونی ہونے کا قانونی نکتہ اصغر خان نے یہ کہہ کر اٹھایا ہوا ہے کہ 1970ء متحدہ پاکستان کے لیے ہونے والے انتخابات کی روشنی میں مشرقی پاکستان کی جدائی کے بعد بقیہ مغربی پاکستان پر تھوپی ہوئی حکومت اپنا جواز حکمرانی کیسے برقرار رکھ سکتی ہے یہ غیر قانونی حکومت ہے، مگر یہ آواز نقا خانے میں توتی کی ہوجاتی ہے۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو مشرقی پاکستان کا پتا ہمیشہ کے لیے صاف کرنے کے لیے اس اسلامی سربراہ کانفرنس کا فائدہ اٹھانے کا پلان بنا چکے تھے۔ انہوں نے 19 فروری کی شام اعلان کیا کہ پاکستان نے دوستوں کے مشورے پر بنگلادیش کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
یہ جدائی کے زخم پر نمک چھڑکنے کا معاملہ تھا مگر مہمانوں کی آمد کے مرحلے میں ملک میں انارکی کو محب الوطن حلقوں نے مناسب نہ سمجھا گیا۔ اُس مرحلے میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ بنگلادیش نامنظور تحریک کے روح رواں تھے تڑپ کر رہ گئے، حکومت کی طرف سے ملک و قوم کو یہ کڑوی گولی نگلوادی گئی۔ الجزائر کے صدر حواری بومدین کے طیارے میں شیخ مجیب الرحمن کو پاکستان لایا گیا تسلیم شدہ سربراہ کے طور پر اور پھر اُس بنگلا بدھو نے او آئی سی اجلاس کے آخری دن پنجاب اسمبلی اجلاس سے خطاب کیا۔ 2024ء میں شیخ مجیب الرحمن کے حواریوں اور بھارت کے منحوس سایے کا یہ ڈھلان ہے۔ تو پاکستان میں شنگھائی کانفرنس کا غلغلہ رہا۔ آٹھ ممالک کے سربراہان اور اہم رہنمائوں کی آمد ہوئی جو دنیا کے تقریباً 80 فی صد رقبہ کے سربراہ ہیں اور دنیا کی جی ڈی پی کا تقریباً 32 فی صد حصہ ان کا ہے۔
(جاری ہے)