ہمارا دائمی احساسِ کمتری

304

میں: آج تم کس احساسِ کمتری کی بات کررہے ہو؟ کیا تمہارا اشارہ بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم کی کسی خاص عادت کی طرف ہے یا تم کسی مجموعی سماجی رویے کی بات کررہے ہو؟

وہ: یہ رویہ نہیں طرزِ زندگی ہے، جسے پاکستانی بالخصوص اور کم وبیش تمام ہی مسلم دنیا اور ان کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کی پیروکار باقی سب اقوام نے بھی باعث ِ اعزاز سمجھ کر اختیار کر رکھا ہے۔

میں: احساسِ کمتری وجہ فخرو ناز کیسے ہوسکتا ہے؟

وہ: یہی تو آج کے انسان کا سب سے بڑا المیہ ہے، بلکہ میرے لیے تو یہ المیے سے زیادہ سب سے بڑا دکھ ہے، کہ ہم مسلمان تاریخ ِ انسانی کی سب سے مکمل ترین تہذیب، آپ ؐ کی سب سے پاکیزہ شخصیت اور ان کے ذریعے سے ملنے والے سب سے سچے دین کے حامل ہونے کے باوجود جانتے بوجھتے ایک ایسی تہذیب ومعاشرت کے پیچھے اندھوں کی طرح دوڑ رہے ہیں جس کا انجام ماسوائے تباہی وبربادی کے کچھ اور نہیں، بقول شاعر

جانتے بوجھتے، سمجھتے نہیں
میں سمجھتا ہوں، یہ ہے آج کا دکھ

میں: تم کہنا کیا چاہ رہے ہو، میری سمجھ میں تمہاری بات بالکل نہیں آرہی؟

وہ: دراصل میری مراد اس احساسِ برتری سے ہے جس کا اظہار ہمارے شب وروز کے اوقات میں ہوتا ہے نہ روز مرہ کے معاملات میں، ہماری چال ڈھال سے جھلکتا ہے نہ صورت ِ اعمال سے، ہمارے نظم ِ معاشرت میں نظرآتا ہے نہ طرزِ سیاست میں، دل کا گداز بن پاتا ہے نہ محبت کا چہکتا ساز۔

میں: تم کیا آج مجھے الفاظ اور ضد کا سبق سکھانے کا ارادہ رکھتے ہو؟ احساسِ کمتری کا عنوان دے کر احساسِ برتری کا ذکر لے بیٹھے۔

وہ: یہی تو کہنا چاہ رہا ہوں کہ جب افراد اپنی برتری کو کمتری سمجھنے لگیں اور غیروں کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب ہوکر اپنی تہذیبی، اخلاقی اور دینی مال ومتاع کو دائو پر لگادیں، پھر سماجی قدروں کے پیمانوں اور ترقی کے معیار کی ہر سند وہیں سے حاصل کریں۔ تمہیں اقبال کا وہ شعر یاد ہیں نا

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولؐ ہاشمی

میں: تمہارے کہنے کا مقصد یہ کہ ہم مسلمانوں نے اپنی تہذیب واخلاقیات اور مذہب سے صرفِ نظر کرتے ہوئے مغربی تہذیب ومعاشرت کو اختیار کرلیا ہے۔ کیوں کہ ہم اس جدید تہذیب کے مقابلے میں اپنی ثقافت، رہن سہن اور طرز معاشرت اور کہیں کہیں شاید اپنے مذہب کے حوالے سے بھی احساس کمتری کا شکار ہیں۔ لیکن میں تمہاری اس بات پر معترض ہوں ہے کہ اس احساسِ کمتری کو تم دائمی کیوں کہہ رہے ہو؟ جہاں تک میری یادداشت ساتھ دے رہی ہمارے خطے میں اس تہذیبی یلغار کا عمل شاید ڈیڑھ دو صدی قبل ہی تو شروع ہوا ہے۔

وہ: تمہاری بات درست ہے مگر میں اسے دائمی اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اس عرصے میں کم وبیش دس نسلیں پروان چڑھ کر اپنی آخری منزل کی جانب سدھار چکی ہیں۔ اس دوران اپنی تہذیب ومعاشرت کو بچانے کے لیے کچھ بھرپور مزاحمتیں بھی نظر آئیں لیکن ہر کوشش بے سود ثابت ہوئی یہاں تک کے پاکستان کے قیام کے بعد بھی ہم نے مغربی تہذیب کے طوفان بلاخیز کے سامنے بند باندھنے کا سنہری موقع ضائع کردیا۔ گاندھی جی نے پاکستان کے قیام پر کہا تھا کہ میں پاکستان میں عمرؓ کا نجام (نظام) دیکھنا چاہتا ہوں لیکن افسوس کہ ہم نے اپنے ملک میں جینٹل مین کا نظام نافذ کرنے کو ترجیح دی۔ ڈاڑھی اورکرتے پاجامے کے بجائے پینٹ کوٹ اورہیٹ کا سراپا ہمارے دلوں کو زیادہ بھایا اور جب پہناوا بدل ہی لیا ہے تو پھر زبان، چال چلن، معیشت، عدالتی و تعلیمی نظام اور معاشرتی آزادی کے نام پر باقی خرافات اپنانے میں کیا حرج ہے۔ اور اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم اپنی سیاست، معاشرت اور نظم حکومت کو بچانے کے لیے اپنی تہذیب، مذہب اور اخلاقیات سے رجوع کرنے کے لیے رتی برابر بھی آمادہ نہیں۔ آج ہم ان تمام باتوں سے یکسر نا بلد ہیں کہ ہماری تہذیبی روایات اور سماجی اقدار کیا ہیں، رشتوں کا احترام کس چیز کا نام ہے۔ ہم نے جب سے مغرب کی چکاچوند سے بھرے اس رستے پر قدم رکھا ہے ہم اس دلدل میں مسلسل دھنستے جارہے ہیں۔ مجھے اس موقع پر جون ایلیا کا ایک شعر یاد آرہا ہے جسے کچھ تحریف کے بعد یوں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔

ہم بھی بہت عجیب ہیں اتنے عجیب ہیں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں

میں: لیکن تم باربارہمارے معاشرے پر مذہب سے روگردانی کا الزام کیوں لگارہے ہو، کیوں کہ میرا مشاہدہ تو یہ ہے کہ آج کا مسلمان اور اپنے دین کی طرف پہلے سے زیادہ مائل نظرآتا ہے۔

وہ: تمہاری یہ بات بھی سو فی صد درست ہے لیکن میرا مشاہدہ اور علم یہ کہتا ہے کہ معاشرے عبادات سے نہیں اخلاقیات سے بنتے ہیں۔