27 اکتوبر 1947 کا وہ سیاہ دن جب بھارتی فوج نے کشمیر پر جبری قبضہ کیا اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم وستم کا آغاز ہوا۔ 1947 میں جب انڈین برٹش کالونی دو خودمختار ریاستوں میں تقسیم ہورہی تھی۔ بھارت نے اس موقع پر آزادی کے قانون اور تقسیم کے منصوبے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی فوجیں جموں وکشمیر میں بھیجیں اور جموں و کشمیر کی ریاستوں پر زبردستی قبضہ کیا۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے ساتھ ساتھ بھارت نے جونا گڑھ، حیدرآباد پر بھی قابض کیا۔ حیدرآباد اور جونا گڑھ دونوںکی آبادی مسلمانوں کی تھی لیکن ہندو حکمران انہیں چلاتے تھے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی اور اسے ہندو حکمران مہاراجا ہری سنگھ چلا رہے تھے۔ ہری سنگھ عوام کی خواہشات کے برعکس ہندوستان سے الحاق رکھنے کے خواہش مند تھے جس پر انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ بھارت نے عوام کی خواہشات کے برعکس حیدرآباد، جوناگڑھ اور مقبوضہ جموں وکشمیر پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ آج بھی مقبوضہ جموں پر کشمیر میں قابض نو لاکھ فوج نے کشمیریوں کو ان کے گھروں میں قید کیا ہوا ہے اور ان کی آزادنہ نقل وحرکت پر پابندی عائد کر کے مقبوضہ علاقے کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کردیا ہے۔ بھارت کے غیر انسانی جبر، فوجی محاصرے، مسلسل ناکہ بندیوں، تشدد اور وحشیانہ جبر کے ساتھ ساتھ پانچ اگست 2019 کو تمام حدود اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا تے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کی متنازع حیثیت کو تبدیل کرکے اور اس کی آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے جو شرمناک عزائم اٹھائے اس پر ناصرف کشمیری عوام اور پاکستان سمیت عالمی برادری نے بھی اسے مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔ بھارتی حکومت کے اس انتہا پسند انہ عزائم کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام آج بھی اپنے صبر واستقامت سے ثابت کردیا کہ بھارت وحشیانہ طاقت کے استعمال سے ان کی مرضی کو نہیں تبدیل نہیں کرسکتا۔ مقبوضہ کشمیر خطہ جنت نظیر میں کئی دھائیوں سے کشمیری عوام حق خوداریت کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں اور ساڑھے سات دھائیوں سے بھارتی جبر کا شکار ہیں۔
پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر بھارت سے کئی جنگیں بھی لڑی اور بھارت کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب بھی کیا۔ آج یاسین ملک سمیت تین سو سے زائد کشمیری رہنما بھارتی جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ عظیم حریت رہنما سید علی گیلانی بھارتی قید میں جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں عظیم مجاہد کمانڈر برہان وانی سمیت ہزاروں نوجوان جام ِ شہادت نوش کر چکے ہیں اور آئے روز مائوں کے جگر گوشے بھارتی فوجیوں کی گولیوں سے چھلنی کیے جارہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے نام ونہاد علمبردار ظالم، قاتل، انسانیت کا دشمن ہے۔ بھارت نے آئین کی دفعہ 370 اور 35 الف کا خاتمہ کرکے کشمیریوں کو دیوار سے لگانے کی جو کوشش کی ہے وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا اور تمام ترظلم وجبر اور ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیری اپنے حق خوداریت کے مطالبہ سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔
27 اکتوبر 1947 کو مقبوضہ کشمیر پر بھارتی جابرانہ قبضے کے خلاف دنیا بھر میں آج بھارت کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں آج یوم ِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ 77 سال سے ظلم وجبر کا بازار جاری ہے۔ عالمی برادری کے احتجاج اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرارداروں کے باوجود بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں دہشت کی فضا قائم کر رکھی ہے اور بھارت اپنے وعدے پورے کرنے سے انکاری ہے۔ کشمیری نوجوان برہان وانی کی ماروائے عدالت شہادت کے بعد بھارتی قابض فوج نے ظالمانہ ہتھکنڈے تیز کردیے ہیں اور تمام انسانی اقدار کو پس ِ پشت ڈال کر کشمیریوں پر وہ ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں کہ الا مان الحفیظ۔ بھارت نے 1948 ہی میں کشمیر پر فوج کشی کر کے عملاً کشمیر پر جابرانہ قبضہ کرلیا تھا اور ہندوں نے ہندوستان کی تقسیم کو دل سے قبول نہیں کیا جس کے نتیجے میں جنت نظیر کشمیر آج ایک جہنم کا منظر پیش کررہا ہے۔ پاکستان نے مظلوم کشمیری بھائیوں کے لیے ہرمحاز پر مدد کی اور عالمی پلیٹ فارم سمیت اقوام عالم میں مسئلہ کشمیر کو نہ صرف یہ کہ اجاگر کیا بلکہ کشمیری عوام کے حق خوداریت کے لیے اقوام متحدہ میں بھرپور کردار ادا کیا اور بھارت کے انتہا پسندانہ کردار کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب بھی کیا۔ بھارت کے تمام تر انتہا پسندانہ عزائم کے باوجود کشمیری عوام اپنے موقوف پر بہادری کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ یوم سیاہ کے موقع پر پوری دنیا کشمیری قوم کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے اور ان کی جائز جدوجہد کی حمایت جاری رکھے گی اور ان کے ناقابل تسخیر جذبے کو سلام پیش کرتی ہے اور اقوام عالم سمیت اقوام متحدہ، سلامتی کونسل سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ بھارت کو نکیل ڈالیں اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرارداروں کے مطابق حل کیا جائے اور نہتے کشمیریوں کو بھارت کے ظلم وجبر سے نجات دلوائی جائے اور 77 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود مسئلہ کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہونا خود ان اداروں کی نااہلی اور کوتاہیوں کی علامت ہے۔ اقوام عالم کو اپنی ترجیحات تبدیل کرنا چاہیے اور انصاف پر مبنی معاشرہ کی تشکیل کے لیے عدل وانصاف کا نظام عملی طور پرنافذ کرکے اپنی ہی قرار دادوں پر عمل کو یقینی بنانا چاہیے۔