اسرائیل نے ایران کے خلاف فضائی حملوں کی نئی مہم کا آغاز کردیا ہے جس کے نتیجے میں تہران کے مختلف علاقوں میں شدید دھماکے سنے گئے۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق ان حملوں سے تہران کی متعدد عمارتیں آگ کی لپیٹ میں آ گئیں اور کئی افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، اسلامی انقلابی گارڈز کے ان اڈوں پر حملہ کیا گیا جنہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ نے تہران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے حوالے سے بتایا کہ ایران کے دفاعی نظام نے حملہ آور میزائلوں اور ڈرونز کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی مار گرایا۔ عالمی منظرنامے پر حالات ایک نئی اور نہایت خطرناک سطح تک بگڑتے جا رہے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ، شام، لبنان کے بعد اب ایران پر حملے شروع کر دیے ہیں، جس سے عالمی امن کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اس نازک وقت میں اقوام متحدہ جیسے ادارے کا کردار بے حد مایوس کن ہے۔ اگر دنیا کی بڑی طاقتوں اور عالمی اداروں نے صورتحال کو سنبھالنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کیے، تو ہم ممکنہ طور پر تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھتے جا رہے ہیں۔ روس اور چین جیسے ممالک کی موجودگی اس تناؤ میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے مغربی طاقتوں کو ’’متکبر‘‘ قرار دیتے ہوئے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ایک نئی عالمی جنگ کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مغرب سوویت یونین کے نازی ازم کے خلاف کردار کو بھول چکا ہے اور اب روسی اسٹرٹیجک قوتیں جنگ کے لیے تیار ہیں۔ اب عملی صورت حال کیا بنتی ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ امریکا بظاہر جنگ بندی کی حمایت کرتا نظر آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلسل اسرائیل کو ہتھیار، گولہ بارود اور انٹیلی جنس فراہم کر رہا ہے۔ غزہ، لبنان اور اب ایران تک پھیلتے ہوئے ان تنازعات میں اقوام متحدہ کا کمزور کردار اور عالمی برادری کی خاموشی تشویشناک ہے۔ دنیا کے بڑے ممالک کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر فوری طور پر امن کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو نتائج نہایت تباہ کن ہو سکتے ہیں۔