مسئلہ کشمیر پس پشت ڈال کر بھارت سے دوستی اور تجارت اصولی موقف سے روگردانی ہوگی

88

کراچی (رپورٹ: سید وزیر علی قادری) 27 اکتوبر کو دنیا بھر میں کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور بھارتی جبر کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ جسارت نے اس تناظر میں مختلف اہم شخصیات سے سوال کیا کہ کیا مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر بھارت سے دوستی اور تجارت کی جاسکتی ہے؟ اس سوال پر لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید پراچہ، پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحق منصوری، تصور حسین موسوی، نوید انجم، اور زینب جلال نے واضح انداز میں بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کی تجارت اور تعلقات کی مخالفت کی۔نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے زور دیا کہ بھارت نے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس پر تسلط قائم کیا ہوا ہے اور پاکستان کے اصولی مؤقف کے خلاف کشمیریوں پر ظلم و جبر کی انتہا کر رکھی ہے۔ لیاقت بلوچ نے 5 اگست 2019 کے بھارتی اقدامات کو کشمیریوں کی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہیں ہوتی، بھارت سے دوستی اور تجارت ناممکن ہے۔ ان کے مطابق، بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کا قیام کشمیری عوام کی قربانیوں کے ساتھ غداری کے مترادف ہوگا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہننما ڈاکٹر فرید پراچہ، کا کہنا تھا کہ بھارت کشمیریوں کی جدوجہد کو طاقت کے زور پر دبا رہا ہے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تجارت کو فروغ دینا پاکستانی حکمرانوں کی بے حسی اور کشمیری عوام سے بے وفائی ہے۔ ان کے بقول، کشمیری عوام کی محبت اور پاکستان سے وابستگی کسی شک و شبے سے بالاتر ہے اور مسئلہ کشمیر کا حل ہی اصل ہدف ہونا چاہیے۔جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق ( فرحان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر کسی قسم کے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے ۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے ‘شہہ رگ کسی کے قبضے میں ہو اس سے اور کیا بات کی جائے۔پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحق منصوری نے بھی بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے سخت مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ امن کی آشا جیسی کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں، کیونکہ بھارت نے ہمیشہ کشمیر پر قبضے کی پالیسی اپنائی۔ ان کے مطابق، مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پاکستان کو اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں ہے۔ سینئر صحافی اورکالم نگار اعجاز احمد طاہر اعوان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قرار دادیں ہی بھارت پاکستان کو قانونی اور آئینی بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔ اس سنگین مسئلہ میں تاخیر سے کشمیری عوام کا حق خودارادیت شرانگیزی کا شکار بن کر رہ گیا ہے۔ اگر مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ خدانخواستہ دونوں ممالک کے درمیان مزید جنگیں ہو سکتی ہیں۔ تصور حسین موسوی اور نوید انجم نے بھی کشمیر کے مسئلے پر عالمی برادری کو متحرک کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان کو بھارت کے بجائے دیگر ممالک سے تجارتی تعلقات کو فروغ دینا چاہیے۔ ان کا مؤقف تھا کہ بھارت کے ساتھ تجارت کا آغاز مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر کشمیری عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہوگا۔ زینب جلال نے کہا کہ پاکستان کا کشمیر کے ساتھ تعلق محض جغرافیائی نہیں، بلکہ اسلامی بھائی چارے کا ہے، جو ہر صورت میں مقدم ہے۔ ان کے مطابق بھارت سے تعلقات کے قیام کا فیصلہ کشمیریوں کے دکھ درد کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہوگا۔غرض، تمام رائے دہندگان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت اصولی موقف سے روگردانی ہوگی۔