بھارت میں کشمیر کی صورت حال کو دیانت دارانہ اور غیر جانبدارانہ انداز سے دیکھنے اور بیان کرنے والے زندہ ضمیر دانشور اور تجزیہ نگار اب انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے کی چند آخری کڑیاں باقی ہیں جن میں ایک کڑی حال ہی میں ایک بے بدل دانشور مصنف وکیل اور محقق اے جی نورانی (پاکستان کے سابق وزیر خارجہ زین نورانی کے چھوٹے بھائی) کی موت کی صورت میں ٹوٹ گری۔ اس منظر پر پراون ساہنی جیسے کردار اب بھی باقی ہیں جو کشمیر کے حالات کو بھارتی حکمرانوں کی عینک سے دیکھنے کے بجائے زمینی صورت حال اور جیو پولیٹکس کے زاویے سے دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔ بھارت کے سابق فوجی اور ’’دی فورس میگزین‘‘ کے ایڈیٹر پراون ساہنی وقتاً فوقتاً کشمیر کے حالات پر اپنا تجزیہ بیان کرتے ہیں۔ اس کے لیے کبھی وہ کشمیر کا سفر بھی اختیار کرتے ہیں اور کبھی محض دور سے ہی حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ پانچ اگست 2019 کے دہشت اور وحشت زدہ ماحول میں یہ بھارت کے وہ واحد جرأت مند صحافی تھے جنہوں نے اس کے چند ماہ بعد ہی کشمیر کا سفر اختیار کرکے جھیل ڈل میں ایک شکارے پر بیٹھ کر کشمیر یوں کے حقیقی جذبات واحساسات دنیا کے سامنے لائے تھے۔ کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات اور عمر عبداللہ کی حکومت قائم ہونے کے بعد انہوں نے ایک بار پھر سری نگر کے لیے رخت سفر باندھا ہے۔ جہاں انہوں نے ڈرے اور سہمے ہوئے اخبار نویسوں سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں کرنے کے بعد اپنا تجزیہ بیان کیا ہے۔ ان کے تجزیے میں کشمیریوں کی موجودہ ذہنی اُپچ اسلام آباد اور دہلی کے پالیسی سازوں کی حکمت عملی اور بالخصوص علاقے کی ایک اہم ترین طاقت چین کے ارادوں کے بارے میں بین السطور بہت کچھ ملتا ہے۔ ان کا یہ تجزیہ کشمیر کے حوالے سے کام کرنے والے محققین، سیاسیات کشمیر کے طلبہ اور عالمی علاقائی اور تزویراتی کینوس سے دلچسپی رکھنے والوں کے خاصا معلومات افزا اور بھارت کے سخت گیر عناصر کے لیے دعوتِ فکر بھی ہے۔
”Elections, the Sentiment & Gobal geo politics” کے عنوان سے اپنے تجزیے میں پراون ساہنی کا کہنا تھا کہ انہیں یہ تجسس تھا کہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے بعد کشمیری عوام کس طرح سوچتے ہیں اور عمر عبداللہ حکومت کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور پھر جیو پولیٹکل منظر پر اس کی کیا تصویر بنتی ہے؟۔ ان کے مطابق کشمیری عوام نے جم کر نیشنل کانفرنس کو ووٹ دیا اور اس کی توقع خود عمر عبداللہ کو بھی نہیں تھی۔ تجزیہ نگار نے اس کی تین وجوہات بیان کی ہیں۔ اوّل یہ کہ حقیقت میں کشمیر میں پڑنے والا ووٹ مودی حکومت کے پانچ اگست کے فیصلے کے خلاف تھا۔ دوم یہ کہ کشمیر ی زندہ رہنا چاہتے ہیں روز گار چاہتے ہیں اور ایک ایسی انتظامیہ چاہتے ہیں کہ جس تک ان کی آسان رسائی ہو۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک لیفٹیننٹ گورنر عوام کی دسترس میں ہو۔ لوگوں کی خواہش ایک ایسا نمائندہ ایک ایسی حکومت اور وزیر اعلیٰ ہے جس کے پاس وہ اپنے روز مرہ مسائل کے حل کے لیے باآسانی جا سکیں۔ سوم یہ کہ عمرعبداللہ نے انتخابی مہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ کامیاب ہوگئے تو ان کا پہلا حکم آرٹیکل 370 کی بحالی ہوگا۔ گوکہ کشمیری عوام جو تاریخ میں بہت سرد وگرم سے گزرے ہیں بخوبی سمجھتے تھے کہ ایسا کرنا عمر عبداللہ کے اختیار میں نہیں صرف مودی حکومت ہی اس فیصلے کو واپس لینے کا اختیار رکھتی ہے اس کے باوجود انہیں توقع تھی کہ عمر عبداللہ جب وزیر اعلیٰ بنیں گے تو اسمبلی میں ان کی پہلی قراردار کشمیر کی خصوصی کی شناخت کی بحالی کے مطالبے پر مبنی ہوگی۔ آج عمر عبداللہ وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ چار دن سے انہوں نے اپنا ایجنڈا کس طرح چلانے کی کوشش کی ہے۔ جب انہوں نے اعتماد کا ووٹ لیا تو وہ آرٹیکل 370 کی بحالی کو بھول گئے اور انہوں نے میڈیا کو کہا میری ترجیح اس یونین ٹیرٹری کو ریاست کا درجہ دلانا ہے۔ عین اسی دوران وزیرا علیٰ نے نہیں لیفٹیننٹ گورنر نے وزراء کو محکمے تفویض کیے۔ اس کے ساتھ ہی عمر عبداللہ نے اسمبلی کے بجائے کابینہ میں کشمیر کی ریاستی شناخت کی بحالی کی قرارداد منظور کی۔ دوسرے ہی روز لیفٹیننٹ گورنر کے دفتر سے اخبارات کو بیان جاری کیا گیا کہ کابینہ کی قرارداد کو لیفٹیننٹ گورنر نے مرکز کو ارسال کر دیا ہے۔ یعنی چیف منسٹر کی تجویز گورنر نے قبول کی ہے اور اسے مزید قبولیت کے لیے آگے روانہ کردیا ہے۔ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیر اعلیٰ نے گور نرکے ساتھ پہلی ملاقات میں صرف ترقیاتی منصوبوں پر بات کی حالانکہ یہ نارمل ریاست نہیں۔ میں اسے ریاست ہی کہوں گا کیونکہ یہ برسوں ریاست ہی رہی ہے۔ یہ وہ بات ہے جو وزیر اعلیٰ کو کرنی چاہیے تھی۔
نارملسی کا مطلب تین بنیادی چیزیں ہیں اوّل یہ ہے کہ کشمیر پولیس وزیر اعلیٰ کے ماتحت ہونی چاہیے اور رسمی طور پر وزارت داخلہ کے تحت۔ دوم :یہاں ایک آزاد میڈیا ہونا چاہیے جو آج ناپید ہے۔ میں دودن میں دیکھا کہ جابجا غیر ضروری سوالات پوچھے جاتے ہیں۔سری نگر کے سینئر صحافیوں نے مجھے بتایا کہ ہم بے روزگار ہیں کیونکہ ہمیں اپنے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کرنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔ پولیس انٹیلی جنس ایجنسیاں انہیں تحفظ دے کر آزادی اظہار کو یقینی بنا سکتی ہیں مگر ایسا نہیں ہورہا۔ سوم: کسی نارمل معاشرے میں سول سوسائٹی کا وجود ضروری ہوتا ہے کشمیر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں، ٹریڈ یونیز، وکلا تنظیموں این جی اوز پر پابندی ہے مگر عمر عبداللہ نے گورنر سے اس پر بات نہیں کی۔ یوں لگتا ہے کہ عمر عبداللہ کو صرف اتنی ہی اسپیس میں کام کرنا ہے جو اسے مودی حکومت نے فراہم کرے گی حالانکہ انہیں عوام نے وزیر اعلیٰ منتخب کیا ہے مگر وہ مرکزی حکومت کے دست نگر ہیں اور ایسے میں وہ بھلا کیسے ڈلیور کر سکتے ہیں؟۔ حتیٰ کہ بی جے پی بھی انتخابی نتائج سے فرسٹریشن کا شکار ہے جسے یہ امید تھی کہ وہ وادیٔ کشمیر سے پانچ سے آٹھ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
بی جے پی جوڑ توڑ کرکے مسلم اکثریتی علاقے میں ایک ایسا مسلم وزیر اعلیٰ لانا چاہتی تھی جو بی جے پی کی آئیڈیولوجی کو قبول کرنے کو تیار ہو۔ یہ مودی حکومت کی واہ واہ کرانے کے لیے کافی تھا اور اس کے بعد وہ اعتماد کے ساتھ پاکستان کے ساتھ بات کرنا چاہتے تھے مگر یہ نہ ہو سکا۔ مودی حکومت گزشتہ دس سال سے مسلسل انتخابی بخار میں مبتلا رہی ہے اور اس میں ان کا ٹرمپ کارڈ ان کی آئیڈیولوجی ہے یہ ٹرمپ کارڈ ان کے پاس تادیر رہتا ہے یا نہیں مگر پاکستان کے دشمن ہونے کارڈ ان کے پاس مستقلاً رہے گا۔
زمینی حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہاں پراون ساہنی آنے والے حالات کی تصویر بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال بھی ہوتی اور عمر عبداللہ کو کچھ اختیارات حاصل بھی ہوجاتے ہیں تب بھی سیاسی عدم استحکام برقرار رہے گا کیونکہ جو کچھ کشمیر میں ہورہا ہے نارمل نہیںہے۔ اب عام کشمیری کے جذبات کی بات کرتے ہیں جس کے لیے وہ ”Kashmir Sentiment” کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ کشمیر میں بہت سے لوگوں نے مجھے بتایا کہ پاکستان ہماری مدد نہیں کر سکتا، پاکستان دیوالیہ ہوگیا ہے۔ پاکستان اپنے کئی مسائل کا شکار ہے۔ ہمیں اسی حال میں جینا ہے مجھے پتا تھا کہ یہ وہ کشمیری ہیں جو پاکستان میں عمران خان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے دلبرداشتہ ہیں کیونکہ حالیہ عرصہ میں عمران خان پاکستان کی تاریخ کے پہلے صدر یا وزیر اعظم ہیں جنہوں نے کشمیر میں اپنا ایک غیر معمولی امیج بنایا ہے۔ اس کے باوجود کشمیری پاکستان کے ساتھ بڑی تعداد میں مذہبی اور تاریخی وجوہات کی بنا پر جڑے رہیں گے۔ کشمیری مانتے ہیں کہ بھارت نے یہاں تعمیر وترقی پر بہت رقم خرچ کی ہے حتیٰ کہ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت نے بہت رقم خرچ کی ہے انفرا اسٹرکچر کی مد میں مگر جو بات اس سب پر پانی پھیرتی ہے وہ ہیں اسی ہزار قبریں ان لوگوں کی جنہیں بھلے سے آپ ملی ٹینٹ کہیں یا دہشت گرد۔ یہ قبریں کشمیر میں پاکستان کی سرمایہ کاری ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ ان قبرستانوں میں پاکستانیوں کی قبریں مقامی ملی ٹینٹس کی قبروں سے زیادہ سجی اور آراستہ ہیں۔ یہ مذہبی فیکٹر ہے۔ یہ ہے کشمیری جذبات کا ایک اہم حصہ کہ وہ پاکستان سے بدستور جڑے رہیں گے۔ اگر بھارتی حکومت اعلان کرتی ہے کہ ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کی طرح شملہ معاہدے کو بھی تسلیم نہیں کرتے جس میں کشمیر پر دوطرفہ بات چیت کا اعادہ کیا گیا ہے تب بھی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور چین اس ریاست کے دوحصوں پر اپنا کنٹرول جمائے ہوئے ہیں۔
پانچ اگست کے بعد پاکستان اور چین ناقابل تصور حد تک قریب آچکے ہیں۔ اگست 2019 سے پہلے اس کا تصور بھی محال تھا۔ وہ سیاسی فوجی اور اسٹرٹیجک اعتبار سے ایک ہو چکے ہیں۔ آج جب میں کشمیر میں موجود ہوں فوج کے لوگ کہتے ہیں چین کا خطرہ پاکستان کا خطرہ حقیقت میں یہ الگ خطرات نہیں بلکہ دونوں مشترکہ خطرے میں ڈھل کر رہ گئے ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان اور چین مل کر بھارت کے ساتھ لڑیں گے۔ اگر خدانخواستہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تو پیپلزلبریشن آرمی کے بہت سے اثاثے سہولت کی شکل میں پاکستانی فوج کو حاصل ہوں گے۔ بھارت کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ چین کے ساتھ سرحد پر اپنے مادی اور انسانی اثاثوں کو کنٹرول لائن پر منتقل کرے کیونکہ اسے بدستور چینی فوج کا خطرہ رہے گا۔ یہ سرحد بھی ہائی الرٹ پر ہوگی۔ سائبر اور اسپیس کی چینی صلاحیت بھی پاکستان کو حاصل رہے گی۔ یہ پاکستان کو بھارت پر برتری دلا سکتا ہے۔ چین دنیا میں عظیم طاقت بن چکا ہے۔ یہی جیو پولیٹکس ہے۔ ملٹی پولر دنیا میں اس وقت تین عظیم طاقتیں ہیں امریکا چین اور روس۔ عظیم طاقت کی تعریف یہ ہے کہ جو کہیں مداخلت کی طاقت اور صلاحیت رکھتی ہو اور کوئی اندرونی اور بیرونی دبائو اسے اپنی پالیسی اور اقدامات پر نظر ثانی پر مجبور نہ کر سکتا ہو۔ چین آج یہ صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔
؎پانچ اگست کے بعد عمران خان اور جنرل باجوہ دوڑے دوڑے چین جاپہنچے تھے۔ شی چن پنگ نے باجوہ کو بتایا تھا کہ جنگ نہ لڑیں مگر ہمیں اپنی جانب سے اس معاملے سے نمٹنے دیں۔ بعد میں شی چن پنگ نے چنائی میں اکتوبر 2019 میں سہ فریقی امن کی بات کی۔ پاکستان بھارت، چین بھارت اور چین پاکستان کے درمیان امن۔ میرا ماننا ہے کہ کشمیر آج بھی خطے کا مرکزی نقطہ ہے۔ گوکہ پاکستان نے اپنی پوزیشن تبدیل کی ہے وہ کہنے لگے ہیں کشمیر کور ایشو ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ دوسرے معاملات پر بھی بات کی جا سکتی ہے مگر مودی تو بات سے ہی انکاری ہو چکے ہیں اور کہتے ہیں بات صرف آزادکشمیر حاصل کرنے اور پراکسی وار روکنے کے لیے ہو سکتی ہے۔ بھارت اور چین کے تعلقات کا درجہ گر چکا ہے گوکہ چینی صبر کا مادہ رکھتے ہیں مگر صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اگر سرنگ کی دوسری سمت میں روشنی نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ سرنگ غیر مختتم نہیں بلکہ محدود ہے۔ پراون ساہنی اپنی گفتگو اور مشاہدات کا اختتام تین نکات کے خلاصے میں یوں بیان کرتے ہیں اوّل؛ کشمیر میں بہت زیادہ سیاسی عدم استحکام ہے دوم؛ کشمیری جذبات زندہ وبیدار رہیں اور یہ اس کے تاریخی اور مذہبی جذبات پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ چین امن چاہتا ہے چین نے پاکستان کو بھی امن کی راہ پر لایا ہے مگر امن کی خواہش دائمی نہیں ہو سکتی۔ بھارت کے پاس امن کے لیے چین اور پاکستان کے ساتھ بیٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔