چھبیسویں، ستائیسویں، اٹھائیسویں…

188

صاحبو! دل کے ارمانوں کا قدردان قیس کو نہ ملا، رانجھے کو نہ ملا، فرہاد کو نہ ملا، شہباز حکومت کو مل گیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم حکومت کے سینے سے ہی لگی رہتی اگر مولانا فضل الرحمن قدردانی نہ فرماتے۔ جب ترمیم پر حکومت کی خود کلامیاں آغاز ہوئیں مولانا نے بڑی گرجدار آواز میں اس کی مخالفت کی۔ پی ٹی آئی کے سیاسی بچونگڑے جن کو مولانا سے سیاسی ٹیوشن لینے کی ضرورت ہے نہ جانے کیا سمجھے مولانا پر فریفتہ ہوتے چلے گئے۔ مولانا جو کل تک انہیں اود بلائو اور نہ جانے کیا کیا نظر آتے تھے وہ ان کی چشم قتالہ کے اسیر ہوتے چلے گئے۔ مولانا کے دربار کے چکر پر چکر، حاضریوں پر حاضریاں۔ سچ ہے عقل دیکھ کر تقسیم نہیں کی جاتی۔ پھر مولانا نے ان کے ساتھ وہی کیا جو سیاسی معذوروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ایک طرف صدر آصف علی زرداری، شہباز شریف، نواز شریف اور بلاول مولانا کو اپنی قسمت کا ستارہ سمجھتے رہے دوسری طرف تحریک انصاف مولانا سے اپنی آنکھوں پر پٹیاں بندھواتی رہے۔ اسے کہتے ہیں سیاست۔

حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے پوری کوشش کی کہ تحریک انصاف دشمن ملک پر حملے کے طرز کی سیاست سے کنارہ کشی کرتے ہوئے آئینی ترمیم میں اپنا کردار ادا کرے لیکن وہ کوئی دوٹوک موقف اختیار نہ کرسکی۔ وہ نہ چھبیسویں ترمیم کی کھل کر مخالفت کرسکی اور نہ تائید۔ ترمیم کی شہزادی قلعے میں بیٹھی انتظار کرتی رہے اور وہ مولاناکے پاس بار بار جانے کو ماں کی دعا، جنت کی ہوا سمجھتے رہے۔ مولانا کی خوبی یہ رہی کہ ایک طرف وہ ترمیم کو اپنی مرضی کا رنگ دینے میں کامیاب رہے، حکومت کو اس سے زیادہ فوائد حاصل نہیں کرنے دیے دوسری طرف یہ یقین ہوتے ہی کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بہرطور ترمیم منظور کرالے گی انہوں نے اپنا وزن حکومت کے ترازو میں ڈال دیا لیکن اس خوبی کے ساتھ کہ ترمیم کی منظوری کے عوض انہوں نے جو سیاسی فائدے اٹھائے ہیں ان پر کسی کی نظر نہ پڑے، وہ کہیں زیر بحث نہ آئیں۔ بلا معاوضہ تو سیاست میں خدمات پیش نہیں کی جاتیںنا۔ مزے کی بات یہ رہی کہ اس بات کا یقین ہوجانے کے بعد بھی کہ مولانا حکومت کا ساتھ دیں گے بیرسٹر گوہر مولانا کی تعریف میں جتے ہوئے تھے۔ ملکی سیاست کو جیسا مولانا نے سمجھا اور برتا ہے شاید ہی کسی اور نے سمجھا اور برتا ہو۔ اس کے بعد یہ منظرنامہ تو بننا ہی تھا کہ ترمیم کی منظوری کے بعد سب مولانا کے گلے میں ہی ہار ڈال رہے تھے۔ دوسری شخصیت جس نے چھبیسویں ترمیم کی منظوری کی مصیبت کو اپنا قد کاٹھ بالا کرنے کے لیے بخوبی استعمال کیا وہ بلاول زرداری کی رہی۔

مولانا کے تمام تر غمزہ وعشوہ وادا کے باوجود وہ کوشش کرتے رہے اور پر امید رہے کہ بالآخر مولانا حکومتی اتحاد سے آملیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے جس طرح پی ٹی آئی کے روٹھوں کو منانے کی کوششیں کیں اس نے پی پی پی میں انہیں پہلے نمبر پر کھڑا کردیا ہے۔ خواجہ ناظم الدین کے دور میں آٹے کی قلت ہوئی تو انہیں قائد قلت پکارا جانے لگا تھا۔ اس ترمیم کے دوران بلاول نے خود کو قائد مفاہمت کے طور پر پیش کیا ہے۔ چوری کے اس مال کی تقسیم میں جسے حکومت کہتے ہیں سب کو ساتھ لے کر چلنے اور مصالحت آمیز رویوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلاول نے خود کو اس فن کا ماہر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور بہت خوب کی ہے۔

بلاول نے چھبیسویں ترمیم کو جس طرح میثاق جمہوریت سے لنک کیا اس کے بعد ہمیں وہ بڑے بڑے اسمگلر یاد آنے لگے جو اچکن اور ٹوپی پہنے شریف نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ترمیم کے پس منظرمیں بلاول نے پیپلز پارٹی کے منشور کے ایک فراموش کردہ نکتے کی جس تواتر سے یاددہانی کرائی ہے وہ ان کی میچورٹی کی علامت ہے۔ ان کی اردو درست کرنے والا ابھی تک کوئی استاد پیدا نہیں ہوا لیکن اس پورے سیاسی عمل کے دوران کوششیں کرتے بلاول بہت خوش نظر آئے ہیں۔ جیسی شہرت انہیں اس ترمیم کے دوران ملی وہ ان کے سیاسی کیرئیر کی سب سے بڑی اچیومنٹ ہے۔ ورنہ اب تک کی کامیابیاں تو ایسی ہیں کہ انہیں ایک بڑے بورے میں بند کرکے گھر سے باہر رکھ کر بھلا دیا جائے۔

مسئلہ یہ ہے کہ حکومت سازی کی صنعت اس وقت تک قائم نہیں رہتی اور ترقی نہیں کرتی جب تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ بھی اس کی حسرتوں کا مداوانہ کرتی رہی۔ اسٹیبلشمنٹ تو خیرشہباز حکومت کو آنکھ کا تارا سمجھتی ہے مسئلہ اعلیٰ عدلیہ کے کچھ ججوں کا تھا جو کہیں اور آنکھیں لڑا رہے تھے۔ ان ہی ججوں کو کنٹرول کرنے یا کھیل سے باہر رکھنے کے لیے 26 ویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ سے منظور کروایا گیا ہے۔ اور کہو گڈ ٹو سی یو۔ حکومت اس ترمیم کو میثاق جمہوریت کے مزار پر چڑھاوا اور پارلیمان کی خود مختاری اور اس کی طاقت میں اضافے سے تعبیر کرتی ہے لیکن در حقیقت یہ ان کی طاقت میں اضافہ ہے جن کی طاقت کے سامنے پہلے ہی آنکھ نہیں اٹھائی جاسکتی۔

26 ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس کے انتخاب کے تحسین کے پھول اب پارلیمنٹ اور ایگزکٹو پر برسا کریں۔ ساتھ ہی ترمیم میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ اس کارخانے میں عدالت عظمیٰ کے ججز اور آئینی بنچزکی ’’ٹھوکا ٹھاکی‘‘ کی جایا کرے گی۔ آئندہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اس کارخانے کی پہلی پروڈکٹ ہیں۔ اس قانون سازی کے بعد ججوں کے ساتھ ساتھ پارلیمان بھی اس فیصلے میں شریک ہوگی کہ کون سا جج کس آئینی مقدمے کی اجابت کے دروازے کھولے گا۔

آئین پاکستان بازی گر کی وہ ٹوپی ہے جس سے کچھ بھی برآمد کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی حکومتیں ہوں یا آمرانہ آئین سب کو کانی آنکھ سے دیکھتا ہے اور مفاہمت کرلیتا ہے۔ ہمارے جج صاحبان کا رویہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ فوجی حکومتیں نمودار ہوتی ہیں تو ہمارے محترم جج صاحبان آئین پا کستان کو طویل رخصت پر بھیج دینے میں ڈکٹیٹروں سے بھرپور تعاون کرتے ہیں لیکن سیاسی حکومتیں آتی ہیں تو یہ جج صاحبان آئین پاکستان کو ہی نہیں اس کی خودساختہ تشریحات کو بھی گود لے لیتے ہیں اور حکومتوں کو چلنے نہیں دیتے۔ یہ اور اس طرح کے ڈرامے اس ملک میں چلتے رہے ہیں آئندہ بھی چلتے رہیں گے ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن خدارا ان رنگ بازیوں اور فریب کاریوں کو اسلامی ٹچ دے کر پویتّر کرنے کی کوششیں نہ فرمائیں۔

چھبیسویں ترمیم میں 2028 تک سود کا خاتمے کا فریب دیا گیا ہے۔ یہ اسلامی ٹچ اس طرح پیش کیا گیا ہے جیسے حکومت پر اس کی پابندی لازم ہوگی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو حکومت کے خلاف عدالت سے رجوع کرکے اسے مجبور کیا جاسکے گا کہ وہ ترمیم کی اس شق پر عمل کرے۔ عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے اس طرح کے ٹچ، حکومت، سیاسی جماعتوں، خصوصاً دینی سیاسی جماعتوں کی مجبوری ہیں۔ اسلام کے نام پر سیاست بھی تو کرنی ہے ورنہ وہ بھی جانتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام جو اس ملک میں رائج ہے اس میں سود کا خاتمہ ممکن نہیں۔ سود کے بغیر یہ نظام چل ہی نہیں سکتا۔ سود اور سرمایہ دارانہ نظام لازم و ملزوم ہیں۔

ترمیم میں سود کے خاتمے کی نظر عنایت آئین کے باب نمبر 2 میں رکھی گئی ہے جو اگرچہ آئین کا حصہ ہے لیکن خود آئین کے مطابق اس حصے پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس پر عمل نہ کرسکنے سے آئینی شکنی کا مقدمہ نہیں بنتا۔ حکمرانوں کی جھوٹ کی ضرورت تسلیم، وہ آئین میں چھبیسویں، ستائیسویں، آٹھا ئیسویں جتنی چاہیں ترامیم لاتے رہیں لیکن خدارا ان ترامیم کے اسلامی ہونے کی ایکٹنگ نہ کریں۔

کچھ تو کر خوف خدا دل میں اے ظالم اپنے
دل عشاق کو اس طرح سے برباد نہ کر