درسِ عبرت

241

موجودہ سیاسی کھیل میں مولانا فضل الرحمن نے اپنی اُفتادِ طبع، تحمل اور دور اندیشی کے سبب اپنی قائدانہ حیثیت کو ایسا منوایا کہ سب اُن کی تعریف میں رطب اللِّسان ہوگئے حتیٰ کہ پی ٹی آئی کو جنہوں نے اُن کی توہین میں دینی، سماجی اور تہذیبی اقدار کی ساری حدیں عبور کرلی تھیں ایسا یوٹرن لینا پڑا کہ اپنے آپ پر ہنسی آتی ہوگی یا رونا آتا ہوگا، نہ جانے اپنے ضمیر کو کیسے مطمئن کرتے ہوں گے، لیکن آج اُن کے نزدیک مولانا کی تعریف سب سے بڑی سعادت کی بات ہے۔ مولانا نے قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں بڑی ذہنی اور فکری کاوش کی، جو انتہائی قابل ِ تحسین ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کو اس آئینی ترمیم کا حصہ بنادیا۔ آج وہ بظاہر انکار کے باوجود چیف جسٹس کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی رکنیت اختیار کرکے نظام کا حصہ بن چکے ہیں، ولی دکنی نے کہا تھا:

پہلے جو ’’آپ‘‘ کہہ کر بلاتے تھے، اب وہ ’’تُو‘‘ کہتے ہیں
وقت کے ساتھ خطابات بدل جاتے ہیں

اس شعر میں آپ تصرّف فرماکر ’’آپ‘‘ کی جگہ ’’تُو‘‘ اور ’’تُو‘‘ کی جگہ ’’آپ‘‘ لکھ دیںتو کچھ لوگوں کی حقیقت آپ کو سمجھ میں آجائے گی۔ تاریخ یہ فیصلہ کرے گی کہ خان صاحب کی حکومت کے پورے عرصے میں جنرل فیض حمید نے سیاسی اور پارلیمانی بندوبست کو اپنے ہاتھ میں لے کر اُن کی سیاسی اہلیت کو نفع پہنچایا ہے یا نقصان!۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے کسی حد تک ملک کو ایک بڑے سیاسی بحران سے بچالیا اور امتناعِ ربا کے لیے آئین میں ایک حتمی تاریخ مقرر کراکے ایک بڑا دینی ہدف حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کے لیے بھی ایک مطلوبہ ہدف خاموشی سے حاصل کرلیا، اس حوالے سے ہم اُن سے رابطے میں تھے۔

مولانا کے اس کردار میں دیگر دینی سیاسی جماعتوں کے لیے بھی درسِ عبرت ہے کہ کیا دین ومسلک کا اعلیٰ ترین ہدف آئے روز جلسوں، ریلیوں اور دھرنوں کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے یا اس کے لیے حُسنِ تدبیر وتدبُّر اور حکمت ِ عملی کے ساتھ ساتھ چہار دیواری کے اندر اجلاسوں میں اپنی قیادت اور کارکنوں کی تربیت اور ذہن سازی کی ضرورت ہوتی ہے، کیا ہر وقت سب کو ملامت کرنا مسئلے کا حل ہے۔ ہر قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آج اگر انہیں قومی رہنمائی کا منصِب مل جائے تو ملک جس حالت میں بھی ہے، انہیں یہیں سے اُسے آگے لے جانا ہوگا، ہر ایک کو ادراک ہونا چاہیے کہ ملک کے حالات مثالی نہیں ہیں۔ بس یہی صلاحیت ہمارے ہاں کم یاب بلکہ نایاب ہے۔

دوسرا اہم سبق یہ ہے کہ اگر آپ نظام کے اندر ہیں تو کسی وقت تعداد کم ہونے کے باوجود آپ کی اہمیت غیر معمولی ہوسکتی ہے اور نظام سے باہر بہت بڑی عوامی حمایت کے باوجود آپ بے وَقعت ہیں، گنتی میں نہیں آتے، کیونکہ ہم ایک پارلیمانی جمہوری نظام کے اندر کام کر رہے ہیں۔ نظام سے اقتدار کے وہ ایوان مراد ہیں جہاں ہمارے ملکی وملّی امور کے فیصلے ہوتے ہیں۔ بعض دینی سیاسی جماعتوں نے آئے روز سڑکوں پر آنے کو سیاست کی معراج سمجھ لیا ہے اور اپنے آپ کو نظام سے باہر کردیا ہے، کیونکہ ایسے لوگوں کو مقتدرہ، سیاسی حلیف وحریف سب ناقابل پیشگوئی سمجھتے ہیں۔ کسی صاحب نے پنجابی زبان کا یہ مقولہ نقل کیا تھا: ’’عقل نہ ہووے تے موجاں ای موجاں، عقل ہووے تے سوچاں ای سوچاں‘‘۔ کاش کہ ہم نعرہ زنی کی طلاطم خیز موجوں سے کچھ وقت نکال کر سوچوں کی طرف بھی آئیں، اپنی حکمت ِ عملی کے نقائص پر غور کریں اور اُن پر قابو پاکر اپنی غلطیوں کی تلافی کریں۔ آج کل کسی سیاسی قیادت کی پسند کے خلاف مشورہ دینا اپنے آپ کو اُن کے جاں نثاروں کی نظر میں مغضوب، معتوب اور ناپسندیدہ بنانا ہے، لیکن کسی کو تو کلمہ ٔ حق کہنا ہوگا۔

نوائے وقت سے علٰیحدگی کے بعد معروف صحافی ظہور احمد نے ’’جاوِداں‘‘ کے نام سے لاہور سے ایک اخبار نکالا تھا جو چل نہ سکا۔ انہوں نے لوح پر اپنا اصول لکھا تھا: ’’سب کی خبر دیں گے، سب کی خبر لیں گے‘‘، آج کی صحافت کا اصول ہے: ’’سب کی خبر بنائیں گے، سب کو خبر بنائیں گے‘‘۔ الغرض صحافت کو کبھی مقدس فریضہ سمجھا جاتا تھا، لیکن چند مستثنیات کے سوا بہت پہلے دفن ہوچکی ہے، اب صحافت خواہشات کو خبر کا رنگ دینے یا حصولِ زر کا زینہ ہے۔ ایسی صحافت کے لیے اصول پسندی زہر ِ قاتل ہے، اس لیے صحافی اس سے بچ کر رہتے ہیں۔ دوسرا المیہ یہ ہوا: وقت اتنا برق رفتار ہے کہ اُس کی نبض پر ہاتھ رکھنا صحافی کے لیے مشکل ہے، اگرچہ آج کے ’’نام نہاد‘‘ صحافی کو اداکارو صداکار کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ آسمانِ صحافت پر صرف چند ستارے رہ گئے ہیں، انہیں انگلیوں پہ گنا جاسکتا ہے۔ سب کی نظریں خبر لینے کے لیے نادیدہ مقام یا سونے کی کان کی طرف لگی ہوتی ہیں، صحافت اور اصول پسندی اب متضاد چیزیں ہیں۔ جب تک مطبوعہ ذرائع ابلاغ تھے، خبر کے لیے چوبیس گھنٹے کا انتظار برداشت کرلیا جاتا تھا۔ وقت اتنا سست رفتار تھا کہ بعض اوقات چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود خبر تخلیق نہیں ہوپاتی تھی۔ پھر پی ٹی وی آیا، اس کے بعد نجی چینل آئے، پھر سوشل میڈیا کے مختلف الانواع ڈیجیٹل فورم آگئے کہ سیکنڈ اور منٹ کے اعتبار سے خبریں تخلیق ہونے لگیں اور خبر نگاروں و تجزیہ کاروں کے لیے خبروں کا انتخاب مشکل ہوگیا۔ ڈیجیٹل میڈیا پر تبصرہ فروشی کرنے والے اپنے آپ سے شرمسار ہونے لگے کہ ابھی تبصرہ اور تجزیہ کر کے فارغ نہیں ہوتے کہ وہ خبر باسی ہوجاتی ہے حتیٰ کہ اُس سے سڑاند آنے لگتی ہے۔ اب سوچتے ہیں کہ اسے اپلوڈ کیا جائے یا نہ کیا جائے، اگر اپنے ضمیر سے حیا آئے اور اپلوڈ نہ کریں تو مال کہاں سے آئے، الغرض مسائل کا انبار ہے۔

آج کل معلومات، علمی اثاثے، کتاب، تبصرے، تجزیے، خبریا آڈیو ویڈیو کلپ کو کسی ڈیجیٹل ؍ الیکٹرونک میڈیا پرنشر ہونے کے لیے منتقل کرنے کو ’’اَپ لوڈنگ‘‘ اور کسی ایپ یا ویب سائٹس سے معلومات کو برائے استعمال حاصل کرنے کو ’’ڈائون لوڈنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے ہاں سیاسی اُکھاڑ پَچھاڑ، مکالمات، مذاکرات اور جوڑ توڑ میں اتنا اتار چڑھائو آتا رہا کہ اُس کی خبر نگاری مشکل ہو گئی، کسی کو معلوم نہیں ہورہا تھاکہ اگلے لمحے کیا تبدیلی آئے گی۔ ہماری عدلیہ آج جس مقام پر پہنچی ہے، اس کے بارے میں کسی شاعر نے بہت پہلے کہا تھا:

میں اگر ’’سوختہ ساماں‘‘ ہوں تو یہ رُوزِ سیاہ
خود دکھایا ہے، میرے گھر کے ’’چراغاں‘‘ نے مجھے
’’کافر‘‘ مری تذلیل نہ کرسکتا تھا
یہ ’’سوغات‘‘ عطا کی ہے، ’’مسلماں‘‘ نے مجھے

اس رباعی میں اگر ’’کافر‘‘کی جگہ’’مقتدرہ‘‘، ’’مسلمان‘‘ کی جگہ ’’عدلیہ‘‘، ’’چراغاں‘‘ کی جگہ ’’عدلیہ کی بے لگام آزادی‘‘ اور ’’سوغات‘‘ کی جگہ ’’عدلیہ کا زوال‘‘ مراد لے لیں، تو معنویت سمجھ میں آجائے گی۔ الغرض خان صاحب کو بھی اس مقام پر خود خان صاحب اور آئین وقانون سے بالا عدلیہ نے پہنچایا ہے۔ عدلیہ نے ’’بے لگام آزادی‘‘ کا اتنا بے دردی سے استعمال کیا کہ پورے نظام کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر جام کرلیا اور ’’جوڈیشل کُو‘‘ کی اصطلاح ایجاد ہوئی۔ ایوانِ عدل کو سیاست کا اَکھاڑا بنا دیا، آئین وقانون کے بجائے پسند اور ناپسند پر مبنی فیصلے ہونے لگے، ایسے کرتوتوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے، شعیب بن عزیز نے کہا ہے:

اب اداس پھرتے ہو، سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں

اسی طرح عمران خان اپنے موجودہ انجام کے خود ذمے دار ہیں، انہیں کسی اور کو ملامت کرنے کے بجائے خود کو ملامت کرنا چاہیے، لیکن ہمارے ہاں اپنے تزکیہ اور احتساب کی سرے سے کوئی روایت ہی نہیں ہے، جبکہ خان صاحب تو اپنے آپ کو ’’راستی‘‘ کا مظہر ِ کامل سمجھتے ہیں۔ اگر وہ اپنے عہد ِ اقتدار میں اپنے مخالفین کو جینے دیتے تو انہیں کچھ اور نہیں چاہیے تھا، انہیں خان صاحب کے انتقام سے بچنے کے لیے مقتدرہ کی پناہ لینی پڑی۔ اگر اہل ِ سیاست ایک دوسرے کو فنا کرنے اور نشانِ عبرت بنانے کے بجائے برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرتے تو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنتے، اب ایک دوسرے کی بربادی کا باعث بن گئے ہیں اور اس میں ہر ایک کی باری اپنے اپنے وقت پر آجاتی ہے، راحت اِندوری نے کہا ہے:

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے