غذائی قلت کا مسئلہ

168

اقوام متحدہ کے ادارے عالمی امدادی فنڈ برائے اطفال (یونیسف) نے کہا ہے کہ زندگی بچانے کے علاج میں استعمال ہونے والی خوراک (آر یو ٹی ایف) کی خریداری کے لیے فنڈز کی قلت کے باعث دنیا بھر میں شدید غذائی قلت کا شکار 20 لاکھ بچوں کو موت کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ غذائی قلت سے شدید متاثرہ 12 ممالک پاکستان سمیت مالی، نائیجیریا، چاڈ، نائجر، کیمرون، سوڈان، مڈغاسکر، کینیا، جنوبی سوڈان، کانگو اور یوگنڈا شامل ہیں۔ رواں سال پاکستان میں شدید غذائی قلت کا شکار صرف 2 لاکھ 62 ہزار بچوں (متاثرہ بچوں کی ایک تہائی تعداد) کو زندگی بچانے والی خوراک مہیا کی جاسکی ہے۔ پاکستان میں غذائی قلت کا شکار بچوں کی زندگی بچانے والی خوراک کی موجودہ سپلائی مارچ 2025ء میں ختم ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کئی ممالک میں تنازعات، اقتصادی جھٹکوں اور موسمیاتی بحرانوں کے باعث 5 سال سے کم عمر بچوں میں شدید غذائی قلت کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ یونیسیف کے ڈائریکٹر برائے چائلڈ نیوٹریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ وکٹر اگایو کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 سال میں بے نظیر عالمی ردعمل نے تنازعات، موسمیاتی اور اقتصادی جھٹکوں کے باعث ماں اور بچوں کی غذائیت کے شدید بحران میں مبتلا ممالک میں بچوں کی غذائیت کے پروگراموں کی پیمانہ بڑھانے کی اجازت دی ہے لیکن اس خاموش قاتل سے نبرد آزما تقریباً 20 لاکھ بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے دنیا بھر میں غذائی قلت کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے اس پر صرف رپورٹ پیش کرنا ہی کافی نہیں غذائی بحران سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان غذائی قلت سے متاثرہ ملکوں میں سر فہرست ہے، بالخصوص تھر میں صرف بچے ہی نہیں، جانور بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں اور وہاں غذا کی کمی کے باعث سالانہ سیکڑوں اموات ہورہی ہیں۔ دنیا میں غذائی قلت پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو ممکنہ منی بجٹ کے لیے تجاویز سے آگاہ کر دیا ہے۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی دستاویز کے مطابق، ٹیکس ریونیو میں شارٹ فال کی صورت میں 130 ارب روپے کے ہنگامی ٹیکس اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ میٹھے مشروبات یا شوگر والے ڈرنکس پر 5 فی صد ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز پیش کی گئی ہے جس سے حکومت کو ماہانہ 2.3 ارب روپے اضافی ریونیو حاصل ہوگا۔ مشینری کی درآمد پر 1 فی صد ایڈوانس ٹیکس سے ماہانہ 2 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ صنعتی خام مال کی درآمد پر 1 فی صد ایڈوانس انکم ٹیکس سے ماہانہ 3.5 ارب روپے ٹیکس کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ کمرشل امپورٹرز پر 1 فی صد ٹیکس سے ماہانہ 1 ارب روپے حاصل ہونے کا امکان ہے۔ سپلائز پر بھی 1 فی صد ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ ٹھیکوں پر بھی 1 فی صد اضافی ٹیکس کی تجویز رکھی گئی ہے۔ حکومت مسلسل ایسے اقدامات کررہی ہے جن کا مقصد آئی ایم ایف کو یہ یقین دلانا ہے کہ اس کی تمام شرائط کو من و عن تسلیم کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے منی بجٹ لانا معاشی بوجھ کے تلے دبے ہوئے عوام پر مزید مہنگائی مسلط کرنے کے مترادف ہے۔ گزشتہ روز ڈیزل اور گھی کے نرخ بھی بڑھ گئے۔ عوام کو زندہ درگور کرنے کی پالیسی عوامی اضطراب بڑھا سکتی ہے جس سے حکومت کو نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غیر ملکی اداروں سے قرض لے کر ہم کب تک اشرافیہ اور بیوروکریسی کے اللے تللے پورے کرتے رہیں گے؟ حکومت کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ ملک سرکاری خزانے سے اشرافیہ اور بیوروکریسی کی شاہ خرچیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔