جس قسم کی سیاست نے سیاست جیسے مقدس کام کو بھی بدنام کیا ہے وہ دیکھنی ہو تو پاکستان پیپلز پارٹی کا ریکارڈ دیکھ لیا جائے۔ اسے ڈھٹائی کہا جائے، دروغ گوئی یا چرب زبانی اور اپنے منہ میاں مٹھو بننا، کچھ بھی کہہ لیں یہ پارٹی ہر تعریف پر پوری اُترتی ہے۔ سب کچھ کرکے بھی جمہوری پارٹی کہلاتی ہے۔ آئین بنانے کا سارا کریڈٹ خود لیتی ہے اور اسے تباہ کرنے کا بھی۔ اور اسے مفاہمت کی سیاست کہتی ہے۔ کوئی ڈیڑھ دو ماہ سے آئیں پاکستان پر حملے جاری تھے ایک مسلسل مہم چل رہی تھی آئین کی تشریح کے ذمے دار ادارے عدالت عظمیٰ کے اختیارات کم کرنے بلکہ اسے بے وزن بنانے کی جدوجہد ہورہی تھی اور اس کی قیادت پیپلز پارٹی ہی کررہی تھی اور اس کے رہنماؤں کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ وہ آئینی عدالت بنانا چاہتے ہیں جو ان کے منشور میں ہے، اس مقصد کے لیے 26 ویں آئینی ترمیم پیش کرنے میں بھی پیپلز پارٹی سرگرم تھی، مفاد تو پوری حکومت کا تھا، اس ترمیم کی ساری زد عدلیہ پر پڑ رہی تھی ستمبر میں یہ کوشش ناکام ہوگئی لیکن اصل مفاد جس قوت کا تھا اس نے اکتوبر میں اس کا پورا اہتمام کیا کہ آئینی ترمیم کے لیے نمبر پورے ہوجائیں، اور وہ پورے ہوگئے ترمیم ہوگئی۔
اس ترمیم سے قبل اور بعد کے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے بیانات مذکورہ بالا طرز سیاست کے حوالے سے ثبوت کے لیے کافی ہیں، بلاول زرداری نے اکتوبر کے اوائل میں بیان دیا تھا کہ آئینی اصلاحات بہر صورت لائیں گے۔ کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا، اور آئینی اصلاحات کا سبب بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’’عدلیہ نے 90 کی دہائی میں بے نظیر کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا، میں عدلیہ کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ عدلیہ نے کیا کیا، جنرل پرویز مشرف کو تحفظ دیا۔ اسی آئین کی محافظ عدالت نے جرنیل کو اپنی مرضی کا آئین بنانے کی اجازت دی۔ ان کا غصہ اتنا تھا عدلیہ پر، کہ یہ تک کہا اور بار بار کہا کہ عدالت ایسا کرے اور ہم انہیں مائی لارڈ کہیں، انہوں نے افتخار چودھری پر بھی تنقید کی تھی، سارا غصہ اپنے والدین کے مقدمات اور ان کی اسلام آباد منتقلی کا تھا عوام کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس انتقامی جذبے کے ساتھ پیپلز پارٹی آئینی ترامیم کے لیے نکلی تھی اور اسے مفاہمت کی سیاست قرار دیتے ہوئے بلاول نے کہا تھا کہ ہمارا طریقہ مفاہمت کی سیاست کا ہے لیکن بات یہ کی کہ ہر ظلم کا بدلہ لیں گے۔ بالآخر بدلہ لے لیا۔ اس آئینی ترمیم کا جو پہلا اثر ہونا تھا وہ یہ ہوا کہ عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور چیف جسٹس نہ بن سکے، اس پر بلاول نے وسیم بادامی سے بھی زیادہ معصومانہ تبصرہ کیا ہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ منصور علی شاہ چیف جسٹس نہیں بنیں گے۔ اور یہ بات بھی انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں کہی پتا نہیں اتنے بڑے نشریاتی ادارے کے انٹرویو لینے والے نے اس پر یہ پوچھا کہ نہیں کہ صاف نظر آرہا تھا کہ چیف جسٹس مرضی کا لانے کے لیے ترمیم ہورہی تھی اور آپ کہہ رہے ہیں کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ منصور علی چیف جسٹس نہیں بنیں سکیں گے۔ اپنے انٹرویو میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم پارلیمان میں منظور کی گئی، آئینی ترمیم کے تحت نئے چیف جسٹس کو مقرر کیا جا چکا ہے، 25 اکتوبر سے پہلے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری بڑا کام تھا، 26 ویں آئینی ترمیم کا کام کسی اور چیف جسٹس کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا، یعنی 25 اکتوبر گزر جاتی تو جسٹس منصور چیف جسٹس بن چکے ہوتے اور ان ہی سے خطرہ تھا پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ معلوم نہیں تھا کہ وہ چیف نہیں بن سکیں گے۔ اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں صدر مملکت آصف زرداری اور بلاول کی آرا میں کچھ اختلاف سامنے آیا تو صدر زرداری نے کہا تھا کہ بلاول ابھی ناتجربہ کار ہے بچہ ہے، ہمارے خیال میں ان کے والد صاحب کی رائے درست تھی ورنہ یہ تو پورا ملک جانتا تھا کہ اس ترمیم سے پہلا اثر تو جسٹس منصور کو چیف بننے سے روکنے کا ہو گا جو دوسرے ہی دن ہوگیا۔ لیکن پھر بھی چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ منصورعلی شاہ چیف جسٹس نہیں بنیں گے، جو اختیارات آئینی عدالت کو ملنے تھے وہ تو آئینی بینچ کو مل گئے۔
یہاں آکر انہوں نے اس آئینی ترمیم کے ہیرو مولانا فضل الرحمن کو بھی زیرو کر دیا، ان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے بغیر ہمارے نمبر پورے تھے، اپوزیشن کے ان پٹ کے بغیر بھی ہمارے نمبر پورے تھے، ہم اپنی مرضی کا آئین بنا سکتے تھے لیکن پیپلزپارٹی کا (مفاحمت کا) طریقہ کار رہا ہے، میثاق جمہوریت کا وعدہ پورا کرنا ہے تو زور زبردستی کا ووٹ نہیں چاہیے، اس پر واہ واہ واہ سبحان اللہ پیپلز پارٹی والے تو ضرور کریں گے لیکن کوئی سمجھدار شخص اس کی تائید نہیں کرے گا۔ اس پر مولانا فضل الرحمن کا رد عمل تو فوری طور پر نہیں آیا ممکن ہے وہ بھی فیصل واوڈا کی بات پر یقین رکھتے ہوں کہ ترمیم تو منظور ہوجائے گی خواہ کوئی آئے یا نہ آئے۔ آجائیں تو عزت بچ جائے گی سو بمشکل تمام دوتہائی ارکان پارلیمنٹ اپنی عزت بچا کر آئین کو تار تار کرگئے۔ بلاول کی سیاست پر اور جسٹس منصور کے چیف نہ بننے کے بارے میں ان کی معصومیت پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اسی انٹرویو میں بلاول نے آئینی ترمیم کے پس پردہ مقاصد بھی بیان کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا، حکومت ذمے داروں کا ٹرائل کرنا چاہتی تھی، عدالت آئین کی تشریح کرتے ہوئے حکومتی فیصلے کے راستے میں رکاوٹ بنی، اب پوری بات سامنے آگئی یہ رکاوٹ ہٹ گئی ہے، اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ سویلین کے فوجی عدالت میں ٹرائل کے حامی جسٹس یحییٰ آفریدی بھی تھے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے ایسے قوانین اور ترامیم ان کے خالق یا مسلط کرنے والوں ہی کے خلاف استعمال ہوتے ہیں اس کے لیے تھوڑا انتظار۔