اسلام آباد (نمائندہ جسارت) چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے سپریم کورٹ میں آخری روز اپنے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ ہوسکتا ہے ہم سے بھی کچھ فیصلے غلط ہوئے ہوں، کاغذ کے ٹکڑے پر درج تحریر سے اندازہ لگاتے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تیرہ ماہ سے زائد عرصے تک عہدے پر رہنے کے بعد ریٹائر ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ پر فل کورٹ ریفرنس ہوا جس میں 16 ججز نے شرکت کی۔ فل کورٹ ریفرنس میں 6 ججز میں 2 ایڈہاک اور 2 شرعی عدالت کے ججز بھی شریک ہیں۔ ریفرنس میں جسٹس منصورشاہ وار جسٹس منیب اخترشریک نہیں ہوئے۔ علاوہ ازیں جسٹس عائشہ ملک، جسٹس ملک شہزاد، جسٹس اطہرمن اللہ بھی شرکت نا کرسکے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہوسکتا ہے ہم سے بھی کچھ فیصلے غلط ہوئے ہوں، مقدمات کی سماعت کے وقت ہم قانون کے مطابق چلتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اپنے دورمیں بار اور بینچ سے بہت کچھ سیکھا اور رجسٹرار سپریم کورٹ کی کازلسٹ بنانے میں کبھی مداخلت نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ مارگلہ ہل فیصلے سے متعلق بیٹی نے شکوہ کیا، زندگی میں بہت سے لوگ آپ کی مدد کرتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخارچوہدری کا شکریہ جنہوں نے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بنایا۔انہوں نے کہا کہ ’میری اہلیہ نے ہرمشکل وقت میں میراساتھ دیا، میری زندگی میں ویٹو پاورمیری اہلیہ کوحاصل ہے، ماحولیات بہت اہم موضوع ہے اوراس پرتوجہ دینی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ کیس سنتے ہوئے اندازہ لگانا ہوتا ہے سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے۔ ہم قانون اور کاغذوں پر چلتے ہیں، سچ کیا ہے یہ اوپر والا جانتا ہے۔ ان کابھی شکریہ جو آ ج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔آزادی میں کچھ گھنٹے رہ گئے ہیں، بہت بہت شکریہ۔فل کورٹ ریفرنس کی کاروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پربراہ راست دکھائی گئی۔ فل کورٹ ریفرنس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور نامزد چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی سمیت سپریم کورٹ کے دیگر ججزجسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس سید حسن اظہر رضوی ، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس عرفان سعادت خان ،جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس عقیل عباسی، ایڈہاک ججز جسٹس سردار طار مسعود ، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، شریعت ایپلٹ کورٹ کے ججز جسٹس خالد مسعود اور جسٹس ڈاکٹر قبلہ ایاز شریک ہوئے ۔ چیف جسٹس کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور خاندان کے دیگر افراد ، سپریم کورٹ کے وکلا، عدالتی عملہ اور صحافی شریک ہوئے۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ رخصت پر ہونے کی وجہ سے فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاداحمد خان نے بھی ریفرنس میں شرکت نہیں کی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین و قانون ،جمہوریت اور احتساب کے عمل میں غیر متزلزل رہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پہلی سے 10ویں تک میں بلوچستان میں تعلیم حاصل کی اوراس کے بعد کراچی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جانا پڑا۔ پشین میں میری پیدائش ہوئی اور جب میری عمر 16سال تھی تومیرے والد انتقال کرگئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے چیزوں کو ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پشین میں رہنے والی میری دادی نے آج سے 100 سال قبل اپنے تینوں بیٹوں کو اس وقت کی بہترین تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا، ان کے سب سے بڑے بیٹے قاضی موسی ایکسیٹر کالج گئے، اس کے بعد میرے والد قاضی محمد عیسیٰ انگلستان بار کی ڈگری لینے گئے اور سب سے چھوٹے بیٹے قاضی اسماعیل پائلٹ بنے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپنے ساتھ کام کرنے والے تمام عملے کا مشکور ہوں۔ الوداعی ریفرنس سے سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت میرے اندر ملے جلے رجحانات ہیں۔ ایک طرف چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر دل اداس ہے تو دوسری طرف خوشی بھی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ اچھی صحت کے ساتھ ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو بہت اچھا انسان پایا۔ وہ بہت نرم مزاج انسان ہیں، اگر آپ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو اکسائیں گے تو پھر ان کے غصے سے بچنا مشکل ہے۔ میں نے بھی ایک مرتبہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے غصے کا سامنا کیا ہے۔ میرا یہ تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔ اس موقع پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگے جب کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے خطاب پر مسکراتے رہے۔نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے فل کورٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو غصہ دلائیں گے تو پھر آپ کواللہ تعالیٰ کے علاوہ ان کے غصہ سے کوئی نہیں بچاسکتا، میں یہ کئی مرتبہ برداشت کرچکا ہوں، میں بینچ میں قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ بیٹھ کر بہت کچھ سیکھا۔ نامزد چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواتین کے وراثتی جائیداد میں حق سے متعلق بہترین فیصلے کئے ۔ انہوں نے کہا کہ میری پہلی ترجیح دوردراز علاقوں کی ضلعی عدلیہ ہوگی، فوری طورپردوردراز علاقوں کی ضلعی عدلیہ پر توجہ دینا ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کے فضل سے پاکستان کے عوام کے لیے قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جائے گی،اختیارات کی تقسیم کا اصول غالب رہے گا، جج کے وقار اور عدالت کی عظمت کو سختی سے یقینی بنایا جائے، چاہے چترال میں بیٹھا کوئی جج ہو یا میرے ساتھ سپریم کورٹ میں بیٹھا جج، بار کی شکایات کو بھی فوری طور پر حل کیا جائے گا۔نامزدچیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وہ صدر سپریم کورٹ بار کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل کوحل کرنے کے لئے تیار ہیں اوراس حوالہ سے بارکے صدر سوموار دن ساڑھے 11بجے ملاقات کے لئے آجائیں۔