دل کی اصلاح

146

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دل کی اصلاح کا راستہ کیا ہے؟ اس سوال کا میں ایک مختصر جواب دے رہا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے پر پانی گرے تو اس کو زنگ لگ جاتا ہے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جب آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ پڑجاتا ہے اور استغفار نہیں کرتا‘ توبہ نہیں کرتا اور پھر گناہ کرتا ہے تو ایک اور داغ پڑ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پورے کا پورا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے‘ پورے کا پورا سیاہ ہوجاتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ حضورؐ اس کا علاج کیا ہے؟ دل کیسے صاف ہوسکتا ہے؟ فرمایا کہ کثرۃ ذکر الموت و تلاوت القرآن۔ یہ بیہقی کی حدیث ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ ’’موت کو کثرت سے یاد رکھو اور قرآن کی تلاوت کرو‘‘۔ اگر اِعراب تھوڑا سا بدل کر پڑھے جائیں تو اس کا ایک ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ ’’موت کو بھی کثرت سے یاد رکھو اور قرآن کی تلاوت بھی کثرت کے ساتھ کرو‘‘۔ ان اعراب کے ساتھ حدیث میں روایت تو نہیں آئی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ترجمہ بھی ممکن ہے۔ چنانچہ کثرت کے ساتھ موت کو یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا ہے‘ اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا یہ وہ چیزیں ہیں جن سے دل کی برائیاں دور ہوتی ہیں‘ زنگ دھلتا ہے‘ سیاہی صاف ہوتی ہے اور دل چمکتا ہے۔ اس کے اندر ایمان کا نور پیدا ہوتا ہے‘ اور اس سے پوری زندگی کی اصلاح ہوتی ہے۔ دل کا تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہوجائے‘ اللہ کی یاد دل کے اندر بس جائے تو یہی چیز دل کو صحیح راستے پر لگاتی ہے۔

میرے بھائیو اور بہنو! اگر ہمیں اپنی زندگی کی تعمیر اس نقشے پر کرنا ہے جو نبی کریمؐ نے ہمیں دیا ہے تو ہمیں سب سے پہلے اسی چیز سے آغاز کرنا ہوگا۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم عمل کو چھوڑ دیں گے۔ یہ میں نے بالکل واضح کردیا ہے‘ جیسا کہ حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عمل بھی ساتھ ساتھ ہوگا‘ لیکن دل نقطۂ آغاز ہے۔ اس میں اللہ کی محبت‘ اس کا خوف‘ اس پر یقین و بھروسا‘ اچھے خیالات کو اگر آپ پروان چڑھائیں گے تو دل میں زندگی پیدا ہوگی۔ دل میں زندگی پیدا ہوگی تو آپ کے اندر وہ قوت اور استعداد آئے گی جس سے آپ اللہ کی اور اس کے نبیؐ کی راہ پر چل سکیں گے۔
جب ڈوری بہت زیادہ الجھ جائے تو آپ کوشش یہ کرتے ہیں کہ اس ڈوری کا کہیں سے سرا پکڑ لیں تو پھر آہستہ آہستہ پوری ڈوری کھلتی چلی جاتی ہے۔ آج ہماری زندگی اس ڈوری کی طرح بہت ساری گرہوں میں الجھ گئی ہے۔ معیشت میں‘ سیاست میں‘ معاشرت میں‘ روزمرہ کی زندگی میں‘ اپنی نفسیاتی زندگی میں‘ معاشرتی زندگی میں‘ گھر میں‘ غرض بے شمار گرہیں ہیں جو زندگی کی اس ڈوری کے اندر پڑچکی ہیں۔ ہم کو کہیں سے اس سرے کو پکڑنا ہے۔ پکڑ کر بیٹھ ہی نہیں جانا بلکہ پوری رسی کو کھولنا ہے۔ انسان کا سرا‘ اس کا دل ہے۔ جب بھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ڈوری ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور زندگی ہمارے ہاتھ سے نکل کر خرابی کے راستے پر چل نکلی ہے تو پھر ہمیں واپس جاکر وہیں سے اپنے کام کو شروع کرنا چاہیے‘ اس کی نگرانی کرنا چاہیے‘ اس پر نگاہ رکھنا چاہیے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کی ہمیں فکر کرنا چاہیے۔ دن میں جتنی بار بھی ممکن ہو اس بات کو یاد کریں کہ اللہ سے ملاقات کرنا ہے اور جتنا وقت بھی اللہ توفیق دے اس کی کتاب کی تلاوت کریں۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اس لیے کہ قرآن مجید کا بیشتر حصہ دراصل موت کی یاد دلاتا ہے اور موت کے بعد کی زندگی کی تیاری کی دعوت دیتا ہے۔ گویا یہ دونوں چیزیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔