توبہ کا بار بار ٹوٹنا

162

گناہ پر ندامت اور اس بات کا خوف کہ نفس پر قابو نہ ہونے کی بنا پر کہیں کسی غلطی کا ارتکاب نہ ہو جائے لازمی طور پر ایک پریشان کن صورت ہے لیکن ساتھ ہی یہ نہ بھولیے کہ جب تک احساسِ گناہ دل میں پایا جائے گا اس وقت تک ان شاء اللہ ایمان بھی سرگرم رہے گا۔ دراصل انسان کا نفس ایک تو وہ ہے جو اپنے رب کے احسانات و انعامات کے احساس کے ساتھ پورے اطمینان کے ساتھ اس کی رضا کا پابند ہو جائے۔ یہ نفس مطمئنہ ہے۔ ایک نفس وہ ہے جو وساوسِ شیطانی کی بنا پر نفس کو برائی کی طرف اْکساتا ہے۔ یہ نفسِ امارہ ہے‘ اور تیسرا نفس وہ ہے جو غلط کام کے بارے میں سوچنے‘ یا برائی کی نیت کرنے‘ یا غلطی کر بیٹھنے کے بعد انسان کو ملامت کرتا ہے۔ اسے نفسِ لوامہ یا ضمیر کہا جاتا ہے۔ آپ نے جس کیفیت کا ذکر کیا ہے بظاہر اس کا تعلق نفس کی اسی تیسری قسم کے ساتھ ہے۔ دراصل ہم میں سے اکثر افراد خود اپنے بارے میں اور ابلیس اور اس کی ذریت کے بارے میں صحیح تصور نہیں رکھتے اور فرائض دین کی پابندی کرنے کے بعد سمجھ لیتے ہیں کہ اب ہم شیطان سے محفوظ ہو گئے۔ حالانکہ ہم نماز صرف دن کے پانچ اوقات میں پڑھتے ہیں‘ روزے عموماً صرف رمضان میں رکھتے ہیں‘ حج سال میں مخصوص دنوں میں ہوتا ہے‘ جب کہ شیطان نہ تو کوئی جز وقتی ورکر ہے‘ نہ وہ سرکاری ملازموں کی طرح وقت چرانے کا عادی ہے۔ وہ 24 گھنٹے اور اگر ممکن ہو تو اس سے زیادہ مستعدی کے ساتھ اللہ کے بندوں کو بہکانے میں لگا ہوا ہے۔ اس لیے اس کے حملے ایسے اوقات میں اور ایسے مقامات پر ہوتے ہیں جہاں ہم گمان بھی نہیں کر سکتے۔

قرآن کریم نے انسان کی کمزوری کو جانتے ہوئے انسان کو ناامیدی اور پریشانی اور خوف سے بچانے کے لیے جو بنیادی تصور پیش کیا ہے وہ ہر مسلمان کے لیے ہدایت کی روشنی فراہم کرتا ہے۔ فرمایا: ’’(بندو!) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے‘ جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے‘ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘۔ (الحدید: 21) یہاں اہل ایمان کو اللہ کی مغفرت کی طرف تیزی اختیار کرنے کے ساتھ یہ بات بھی سمجھا دی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کا انجام ان شاء اللہ ایسی جنت ہے جس کی وسعت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔

قرآن کریم انسانی غلطیوں کے لیے ارتکاب فحش اور ارتکاب برائی (سوء) کے الفاظ استعمال کرنے کے بعد اللہ کے بندوں کو وثوق کے ساتھ اْمید دلاتا ہے کہ رب کریم ان کی ندامت اور استغفار و توبہ کو آخر دم تک قبول کرنے کو تیار رہتا ہے۔ وہی تو الرحمن والرحیم ہے۔ غافر الذنب اور قابل التوبہ ہے۔ فرمایا: ’’اگر کوئی شخص برا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا‘‘۔ (النساء: 110) یہاں عمل سوء کا ذکر ہوا لیکن سورئہ آل عمران میں اس سے زیادہ سخت اصطلاح (فاحشہ) کا استعمال کرتے ہوئے فرمایا گیا: ’’اگر کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اْوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہے اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے‘‘۔ (آل عمران، 135)

یہاں یہ بات واضح کر دی گئی کہ اگر ایک شخص اپنی غلطی پر اصرار نہیں کرتا اور رب کریم کا ذکر اور استغفار کرکے اس کی طرف پلٹتا ہے تو رب کریم اس کی غلطیوں سے درگزر فرماتا ہے۔ وہی تو ہے جو بڑی سے بڑی غلطی کو معاف کر سکتا ہے۔ حضرت انسؓ بن مالک نبی کریمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’بندہ گناہ کرنے کے بعد معافی مانگنے کے لیے جب اللہ کی طرف پلٹتا ہے تو اللہ کو اپنے بندے کے پلٹنے پر اس شخص کے مقابلے میں زیادہ خوشی ہوتی ہے جس نے اپنی اونٹنی جس پر اس کی زندگی کا دارومدار تھا‘ کسی بیابان میں گم کر دی اور پھر اس نے اچانک اسے پا لیا ہو۔ ایسے ہی آدمی کے توبہ کرنے پر اللہ خوش ہوتا ہے بلکہ اللہ کی خوشی اس کے مقابلے میں بڑھی ہوئی ہوتی ہے کیونکہ وہ رحم و کرم کا سرچشمہ ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)
اس طرح حضرت ابوموسٰی الاشعریؓ سے ایک روایت مسلم میں ہے جس میں نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ جس شخص نے دن میں کوئی گناہ کیا ہے وہ رات میں اللہ کی طرف پلٹ آئے‘ اور دن میں ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات میں اگر کسی نے گناہ کیا تو وہ دن میں اپنے رب کی طرف پلٹے اور گناہوں کی معافی مانگے حتیٰ کہ سورج مغرب سے طلوع ہو‘‘۔

گویا قیامت کے ظہور تک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں کی مغفرت کے لیے منتظر رہتا ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ توبہ کی قبولیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اللہ بندے کی توبہ سانس رکنے سے پہلے تک قبول کرتا ہے‘‘۔ (ترمذی) یعنی جب انسان پر سکرات واقع ہو جائے اس سے قبل اگر وہ توبہ کر لے تو رب کریم اسے معاف کر دیتا ہے۔ گویا توبہ واستغفار کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ اس لیے نہ کسی خوف میں پڑنے کی ضرورت ہے نہ مایوسی کی۔ اگر ایک مرتبہ غلطی کے بعد معافی مانگ کر کبھی غلطی نہ کرنے کا عہد کیا گیا لیکن اس پر قائم نہ رہا گیا تو دوبارہ توبہ کے بعد توبہ پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ساتھ ہی رضاکارانہ طور پر اپنے اْوپر یہ پابندی لگائی جائے کہ توبہ کے ہمراہ خصوصی نوافل یا نفلی روزے رکھ کر اپنے آپ کو دوبارہ غلطی سے بچانے کی کوشش کرے‘ یا اللہ کی راہ میں کچھ انفاق کر کے اپنے عزم کو مزید مستحکم کرے۔ یہی حصول سکون کا طریقہ ہے اور یہی فلاح و کامیابی کا وہ راستہ ہے جو ہمیں قرآن و سنت نے دکھایا ہے۔