اذکار اور انسانی اثرات

162

نمازوں کے علاوہ حضورؐ صبح و شام‘ مختلف حالات اور مختلف مواقع کے ذکر کا اہتمام فرماتے۔ خود کرتے اور دوسروں کو ترغیب دیتے۔ زندگی کا ہر لمحہ خدا کی اطاعت اوراس کے کلمے کے اعلاء میں صرف ہوتا‘ لیکن اس کے باوجود یہ احساس آپؐ کو ہمیشہ رہتا کہ مجھے جو کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کر سکا۔ چنانچہ دن میں سو سو بار استغفار فرماتے۔ آخری دنوں میں تو سجدہ کی حالت میں بھی تسبیحات کے ساتھ بار بار معافی مانگتے۔ (کتاب التفسیر) جب قرآن کی وہ آیات پڑھتے یا سنتے جن میں رسالت کی ذمے داریوں کے بارے میں سوال کا ذکر ہے تو آنکھیں اشکبارہو جاتیں۔ (الطبقات الکبریٰ‘ ابن سعد) راہِ خدا کی تکلیفیں جب حد سے بڑھ جاتیں تو نماز کا سہارا لیتے۔ فرماتے: ’’نماز میں میرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے‘‘۔ (سنن النسائی)
آپؐ کے اصحاب کا حال مختلف نہیں تھا‘ سیدنا ابوبکرؓ کو لیجیے۔ آپ راتوں میں دیر تک قیام کرتے‘ جب قرآن کی تلاوت کرتے تو گریہ طاری ہو جاتا۔ آخرت کی جواب دہی کا احساس اس قدر شدید تھا کہ ہرا بھرا درخت دیکھتے تو کہتے کاش اس جیسا ہوتا کہ جواب دہی نہ کرنی پڑتی۔ (خلفاے راشدین‘ معین الدین ندوی)
ایک روز رسولؐ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ آج تم میں سے روزہ سے کون ہے؟ ابوبکرؓ نے کہا: میں ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: آج کس نے جنازے کی مشایعت کی؟ کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟ کس نے مریض کی عیادت کی؟ ان سارے سوالوں کے جواب میں جو زبان گویا ہوئی وہ سیدنا ابوبکرؓ کی تھی۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے ایک دن میں اتنی نیکیاں جمع کی ہوں وہ یقیناً جنت میں جائے گا‘‘۔ (مسلم‘ کتاب فضائل الصحابہ‘ باب فضائل ابی بکر) خلیفہ ہونے کے بعد بھی یہ معمولات جاری رہے‘ اگرچہ مصروفیات کی وجہ سے ان میں کمی آگئی۔ آپ کی سیرت کے اس انتہائی مختصر تذکرے میں بھی زندگی کی ہمہ جہتی تکمیل کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے جو اسلام کے پیش نظر ہے۔

شاہ ولی اللہؒ نے صحابہؓ کے بارے میں لکھا ہے:
عہدرسالت اور عہد صحابہ اور کئی صدیوں بعد تک اہل کمال کی توجہ شریعت کے ظاہری اعمال کی بجا آوری پر تھی‘ دوسری چیزوں پر نہیں۔ ان کا احسان یہ تھا کہ نماز اور روزہ‘ ذکر وتلاوت‘ اور حج ادا کریں‘ صدقہ دیں اور جہاد کریں۔ ان میں سے کسی نے بھی ایک لمحے کے لیے مراقبہ نہیں کیا۔ اذکار اور اعمال کے علاوہ کسی اور طریقے سے اللہ کو یاد نہیں کیا۔ ان کے محققین نماز و ذکر میں خدا سے مناجات کا لطف اٹھاتے‘ تلاوت کے دوران اپنا محاسبہ کرتے‘ غیراللہ سے تعلق ختم کرنے اور بخل سے نجات پانے کے لیے زکوٰۃ دیتے۔ وعلیٰ ہذا القیاس۔
ان میں سے کسی نے چیخ نہیں ماری‘ نہ ان پر وجد کی کیفیت طاری ہوئی‘ نہ کسی سے غیرمعمولی حرکات سرزد ہوئیں‘ اور نہ نظمات کا صدور ہوا۔ تجلی اور استقار جیسی کیفیات سے وہ بالکل ناآشنا تھے۔ صرف جنت کے طلب گار اور جہنم سے خائف تھے۔ کشف و کرامت‘ خوارق عادات‘ سکرو و غلبات ان کے یہاں پائے نہیں جاتے۔ اگر کوئی چیز ظاہر بھی ہوئی تو اتفاقیہ ہوئی۔ قصد و ارادے کی پیداوار نہیں تھی کہ ذاتی ملکہ سے صادر ہو۔ اگر ان میں سے کسی نے کہا: ’’طبیب ہی نے تو مجھے بیمار کر ڈالا ہے‘‘ تو وہ ایسا ہے جیسے کہ عام آدمی کو کسی چیز میں بصیرت حاصل ہو جائے۔ یہ تھے احوال اس طبقے کے۔ (ھمعات‘ شاہ ولی اللہ‘ تصحیح نورالحق علوی و غلام مصطفی قاسمی)

صحابہؓ کے سلوک کی یہ تصویر مکمل ہو جائے گی اگر اس کے ساتھ اقامت دین کے لیے ان کی جدوجہد‘ اس راہ کی تکالیف اور آزمایشوں میں ان کی استقامت‘ رجوع الی اللہ اور انابت‘ بندگانِ خدا کی زندگی کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی ان کی کوشش‘ معیشت اور سیاست کو شریعت کا پابند کرنے اور خلق خدا کی خوشی اور خوش حالی کے لیے یہ جامع سلوک صحابہؓ کے بعد بھی ایک دو صدی تک معمول تھا۔ بعد میں دھیرے دھیرے تبدیلیاں ہونے لگیں۔ کچھ چیزیں دوسری قوموں سے لی گئیں‘ اور کچھ تجربات خود کیے گئے۔ اس کے نتیجے میں ایک نئی روحانیت وجود میں آئی۔ نمازوں کی بے حد کثرت ہوئی‘ مسلسل روزے رکھے گئے۔ ذکر کے نئے نئے طریقے ایجاد ہوئے‘ اور ان میں ایسا انہماک ہوا کہ دین کے دوسرے پہلو آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ شروع میں ان کی طرف توجہ نہیں ہوئی‘ بعد میں انھیں اعتنا کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ نماز‘ روزہ‘ ذکرو تلاوت ہی اصل دین اور سارا دین قرار پائے۔ دین کے دوسرے شعبے خاص طور پر جن کا تعلق دین کے اجتماعی نظام اور دنیا کی زندگی کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے سے ہے وہ دین نہیں دنیا شمار ہونے لگے اور ان کے لیے جدوجہد دین داری نہیں دنیا پرستی قرار پائی۔

گزشتہ صدی میں اسلام کے احیا کی جو تحریکیں برعظیم پاک و ہند‘ ممالک عربیہ‘ اور اسلامی دنیا کے دوسرے حصوں میں اٹھی ہیں‘ انھوں نے دین کے اس محدود اور یک طرفہ تصور پر تنقید کی۔ دین کے اجتماعی پہلو کی اہمیت بتائی۔ معاشرت‘ معیشت اور سیاست کو اسلامی خطوط پر کیسے استوار کیا جائے‘ اس کی وضاحت کی‘ اور دین کے اس حصے کے قیام کی کوشش کو اسلامی زندگی میں جو اہمیت حاصل ہے اسے اجاگر کیا اور اس طرح شریعت کے اصل مقاصد کے حصول کی جدوجہد کے لیے اْمت کو منظم اور متحرک کیا۔ البتہ اس امر کا ادراک اور احتساب بھی ضروری ہے کہ احیاے دین اور اقامتِ شریعت کے عظیم کام کی انجام دہی کے لیے فرد اور اجتماع دونوں کو تیار کرنے کے لیے جس درجے کے تزکیے‘ کردار سازی‘ تعلق باللہ اور فکرِآخرت کی ضرورت ہے اور اسلام کے احیا کی اس کوشش میں عبادات کو جو مقام ملنا چاہیے وہ کہاں تک حاصل کیا جاسکا؟ نماز‘ روزہ‘ ذکرو تلاوت‘ سب بذاتہ مقصود ہیں‘ یہ تصور صحیح معنی میں کہاں تک ہماری زندگیوں میں رچ بس سکا‘ اسلامی زندگی میں انھیں جو جگہ ملنی چاہیے وہ مطلوبہ حد تک ملی یا اس میں کچھ کمی رہ گئی؟…یہ سوال اٹھا کر اور تحریک اسلامی کے کارکنوں کو اس پر غور کی دعوت دیتے ہوئے میں اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں اور اپنے لیے اور آپ کے لیے اللہ تعالیٰ سے توفیق عمل کی دعا کرتا ہوں۔