14-15 اکتوبر 2024 کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی سربراہ کانفرنس پاکستان کے لیے علاقائی اور عالمی سطح پر ایک اہم موقع ثابت ہوئی ہے۔ ایس سی او کی تیزی سے بڑھتی ہوئی جغرافیائی و سیاسی اہمیت جس میں چین، روس اور حال ہی میں شامل ہونے والے ایران اور بیلاروس جیسے بڑے ممالک شامل ہیں، اس سال کی کانفرنس نے پاکستان کو اپنے معاشی، سیاسی اور سلامتی کے مفادات کو فروغ دینے کے لیے ایک قیمتی پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔ واضح رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک یوریشیائی سیاسی، اقتصادی، بین الاقوامی سلامتی اور دفاعی تنظیم ہے جو چین اور روس نے 2001 میں قائم کی تھی۔ یہ جغرافیائی وسعت اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے جو دنیا کے تقریباً 24 فی صد علاقے (65 فی صد یوریشیا) اور 42 فی صد عالمی آبادی کا احاطہ کرتی ہے۔ 2024 تک اس کی مشترکہ مجموعی ملکی پیداوار (GDP) عالمی جی ڈی پی کا تقریباً 23 فی صد ہے جبکہ قوت خرید کی برابری (PPP) کی بنیاد پر اس کی جی ڈی پی دنیا کی کل جی ڈی پی کا تقریباً 36 فی صد بنتی ہے۔
ایس سی او نے 2001 میں شنگھائی فائیو نامی تنظیم کے بطن سے جنم لیا جو 1996 میں عوامی جمہوریہ چین، قازقستان، کرغزستان، روس اور تاجکستان نے تشکیل دی تھی۔ جون 2017 میں یہ تنظیم بھارت اور پاکستان سمیت آٹھ ریاستوں تک پھیل گئی۔ ایران نے جولائی 2023 میں اس گروپ میں شمولیت اختیار کی جب کہ بیلاروس جولائی 2024 میں اس تنظیم کارکن بنا۔ حالیہ ایس سی او کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد ہوئی جب پاکستان کثیر جہتی سفارت کاری میں سرگرم تھا اور چین، روس اور امریکا جیسے بڑے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جنوبی ایشیا میں ایک اہم کھلاڑی ہونے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا حصہ ہونے کے ناتے، پاکستان یوریشیائی خطے میں ایک نمایاں مقام کا حامل ہے جس کا ادراک خود پاکستان کے ساتھ ساتھ بڑی طاقتوں کو بھی ہے یہی وجہ ہے کہ ایس سی او پاکستان کو خاص اہمیت دیتا ہے۔ اس کانفرنس میں پاکستان کا فعال کردار اس کی پیچیدہ علاقائی سفارت کاری میں شرکت کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے اور اس کی مشرق اور مغرب کے درمیان پل بننے کی کوششوں کا عکاس ہے۔ اس سربراہ اجلاس نے پاکستان کو ایس سی او کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا موقع دیا، خاص طور پر سلامتی، رابطہ کاری اور معاشی تعاون کے حوالے سے یہ کانفرنس پاکستان کے لیے خصوصی اہمیت کی حامل تھی۔
کانفرنس کے پاکستان کے لیے کلیدی نتائج خاص طور پر انسداد دہشت گردی، انتہا پسندی اور علاقائی استحکام پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس کی علاقائی سلامتی کے عزم کا اعادہ تھا۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کو خاص طور پر افغانستان کی سرحد پر سیکورٹی کے جن سنگین چیلنجز کا سامنا ہے اور جس سے پورے خطے کے امن واستحکام کو خطرہ ہے ایس سی او میں شرکت کے ذریعے پاکستان نے ان مسائل کو اجتماعی طور پر حل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس تنظیم کو ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا ہے جس کے ذریعے انٹیلی جنس شیئرنگ، انسداد دہشت گردی کے تعاون اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کو فروغ دینے کی نئی راہیں کھلی ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایس سی او کے علاقائی انسداد دہشت گردی ڈھانچے (RATS) کے ساتھ مل کر پاکستان نے مشترکہ مشقوں اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے اقدامات میں فعال کردار ادا کیا ہے، جس سے دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ اور منظم جرائم جیسے سرحد پار خطرات کے خلاف علاقائی دفاع کو مضبوط کرنے میں مدد ملی ہے۔ ایس سی او کانفرنس پاکستان کے لیے ان کوششوں کو مستحکم کرنے اور جنوبی اور وسطی ایشیا کو مزید محفوظ اور مستحکم بنانے کے لیے ایک اہم موقع ثابت ہوئی ہے۔ ایس سی او کانفرنس نے تنظیم کی معاشی تعاون، تجارت اور رابطے پر بڑھتی ہوئی توجہ کو بھی اجاگر کیا ہے جسے پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنجز کے تناظر میں خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے۔ تنظیم کا تجارتی راستوں کی توسیع، انفرا اسٹرکچر کی بہتری اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے جیسے عزائم نے یوریشیائی اقتصادی زون کے تصور کو فروغ د یا ہے جو نہ صرف پاکستان کے اسٹرٹیجک مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ ہے بلکہ یہ امر سی پیک کو بھی دوام بخشنے کا باعث بنے گا۔
کانفرنس میں پاکستان نے ایس سی او کے اندر زیادہ سے زیادہ اقتصادی انضمام کی حمایت کا اعادہ کیا اور بی آر آئی اور علاقائی رابطہ کاری کے منصوبوں جیسے اقدامات کی اہمیت پر زور دیا۔ پاکستان ایس سی او کے رکن ممالک خاص طور پر چین اور روس کے ساتھ تجارت بڑھانے اور وسطی ایشیا اور اس سے آگے تک اپنے جغرافیائی مقام سے فائدہ اٹھانے کا خواہاں ہے۔ یہ سربراہ اجلاس پاکستان کے لیے اقتصادی سفارت کاری میں مشغول ہونے، دو طرفہ اور کثیر جہتی معاہدوں کو فروغ دینے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے، جس کا مقصد تجارت، سرمایہ کاری اور انفرا اسٹرکچر کی ترقی کو یقینی بنانا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ایس سی او سربراہ اجلاس نے عالمی سطح پر جو توجہ حاصل کی اس نے اس بات کو اجاگر کیا کہ پاکستان اعلیٰ سطحی کثیر جہتی سفارت کاری میں شامل ہونے اور متنوع بین الاقوامی تعلقات کا انتظام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کانفرنس میں چین، روس اور وسطی ایشیا کے اہم علاقائی رہنماؤں کی شرکت نے ایس سی او کے فریم ورک کے اندر پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو ظاہر کیا ہے۔
ایس سی او کا سربراہ اجلاس پاکستان کے لیے سفارتی طور پر بھارت کے ساتھ تنائو کے شکار دوطرفہ تعلقات کی جمی برف کو کسی حد تک پگھلانے کا موقع بھی ثابت ہوا ہے۔ ایس سی او کا پلیٹ فارم دونوں ممالک کے لیے مشترکہ علاقائی مسائل مثلاً انسداد دہشت گردی اور رابطے پر بات چیت کرنے کا ایک اچھا پلیٹ فارم بھی ثابت ہوا ہے۔ مزید برآں پاکستان کا چین کے ساتھ قریبی تعلق ایس سی او میں اس کی حکمت عملی کا مرکزی حصہ ہے۔ سی پیک، بی آر آئی کے فریم ورک کے تحت پاکستان کے لیے ایک فلیگ شپ منصوبہ ہے، ایس سی او کانفرنس نے پاکستان کو اس شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اسی طرح حالیہ برسوں میں پاکستان کی روس کے ساتھ شمولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یہ کانفرنس دونوں ممالک کے درمیان معاشی اور سیکورٹی تعاون کو وسیع کرنے کی طرف بھی ایک اور قدم کے طورپر سامنے آیا ہے۔ حرف آخر یہ کہ چین کی بڑھتی ہوئی عالمی اقتصادی طاقت کے نتیجے میں چونکہ یوریشیا کا جغرافیائی و سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے نیز مستقبل قریب میں ایس سی او کے ساتھ پاکستان کی وابستگی چونکہ اس کی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کا ایک اہم ستون رہے گی لہٰذا توقع ہے کہ اس سے پاکستان کے لیے معاشی ترقی، سیکورٹی تعاون اور علاقائی اثر رسوخ میں اضافے کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔