پاکستانی جرنیلوں نے پھر قوم کو فتح کرلیا

482

دنیا کی تاریخ میں جرنیلوں نے اپنے حریفوں اور اپنے اپنے دشمنوں پر فتح کی شاندار روایات چھوڑی ہیں۔ طارق بن زیاد نے 18 ہزار فوجیوں کی مدد سے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دے کر اسپین فتح کیا۔ محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے پہنچے تو ان کے پاس صرف 17 ہزار فوجی تھے اور راجا داہر ان کے خلاف ایک لاکھ کا لشکر لیے کھڑا تھا مگر بن قاسم نے 17 ہزار فوجیوں کے ذریعے ایک لاکھ کے لشکر کو ہرا دیا۔ بابر نے صرف 8 ہزار فوجیوں کی مدد سے 18 کروڑ کا ہندوستان فتح کرلیا۔ بابر نے بھی ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دی۔ امریکی جنرل میک آرتھر نے دوسری عالمی جنگ میں جاپان کو فتح کیا۔ 1962ء میں چینی جرنیلوں نے بھارت کی فوج کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔ چینی جرنیلوں نے 20 اکتوبر کو جنگ شروع کی اور 21 نومبر کو انہوں نے بھارت کو شکست فاش سے دوچار کرکے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کردیا لیکن پاکستانی جرنیلوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور اپنی قوم پر ہتھیار تان کر اسے فتح کرتے ہیں۔ پاکستانی جرنیلوں نے 1971ء میں بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔ نائن الیون کے بعد انہوں نے امریکا کے آگے ہتھیار ڈالے، لیکن اپنی قوم کو وہ تواتر کے ساتھ فتح کرتے رہتے ہیں اور خود کو بہادر اور فاتح عالم سمجھتے رہتے ہیں۔ چند روز پیش تر پاکستانی جرنیلوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کراکے ایک بار پھر ملک کی عدلیہ اور پوری پاکستانی قوم کو فتح کرلیا۔ شریفوں کی بدمعاش حکومت جرنیلوں کے اشارے پر پہلے بھی 26 ویں ترمیم منظور کرانے کی کوشش کرچکی تھی مگر اس وقت اسے کامیابی نہیں ملی تھی۔ تاہم اس بار اسٹیبلشمنٹ کی ’’سیاسی رکھیل‘‘ فیصل واوڈا نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس بار حکومت کے ’’نمبرز‘‘ بھی پورے ہیں اور ’’نمبری‘‘ بھی پورے ہیں۔ فیصل واوڈا کی یہ بات سو فی صد درست ثابت ہوئی۔ ’’شریف بدمعاشوں‘‘ ’’ڈاکو زرداریوں‘‘ اور ’’مولانا ڈیزل‘‘ نے اتحاد کرکے 26 ویں آئینی ترمیم کو سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور کرالیا۔ تحریک انصاف نے ایک جماعت کی حیثیت سے دونوں ایوانوں میں رائے شماری کا بائیکاٹ کیا۔ حکومت اپنی اس فتح کو ’’تاریخی‘‘ قرار دے رہی ہے۔ لیکن جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے افسوس سے کہا ہے کہ مفتی محمود کے صاحبزادے اور پوتے اور بھٹو کے نواسے اور داماد نے مل کر متفقہ آئین کی روح کو پامال کیا ہے۔ حافظ صاحب نے بجا طور پر کہا کہ آئینی ترمیم کے لیے اختیار کیا گیا پورا عمل مشکوک تھا۔ پی ڈی ایم حکومت نے رات کی تاریکی میں جو کچھ کیا وہ المیہ ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا فارم 47 کی پیداوار پارلیمنٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آئین کو تبدیل کرے۔ لیکن حافظ نعیم کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کی کوئی بھی رکھیل کہہ دے گی کہ وہ ہمارے سیاسی حریف ہیں وہ ہم پر تنقید نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ لیکن بین الاقوامی کمیشن برائے انصاف یا انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا حریف ہے نہ اس کی سیاسی رکھیلوں کا وہ ایک غیر جانبدار اور آزاد ادارہ ہے۔ اس حیثیت میں آئی سی جے نے 26 ویں آئینی ترمیم کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ روزنامہ ڈان کراچی کی ایک رپورٹ کے مطابق آئی سی جے نے کیا کہا ملاحظہ کیجیے۔

’’بین الاقوامی کمیشن برائے انصاف (آئی سی جے) نے پیر کے روز 26 ویں آئینی ترمیم کو قانون کا حصہ بننے پر تنقید کرتے ہوئے اسے عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی، اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کاری ضرب قرار دیا۔ اس پیش رفت پر رد عمل دیتے ہوئے آئی سی جے نے کہا کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک زبردست دھچکا ہے۔ آئی سی جے کے سیکرٹری جنرل سانتیاگو کانٹن نے ایک بیان میں کہا کہ ان تبدیلیوں نے عدلیہ کی تقرریوں اور خود عدلیہ پر انتظامیہ کے غیر معمولی سیاسی اثر رسوخ کو متعارف کرایا ہے۔ بیان میں کہا گیا، ’’یہ عدلیہ کی صلاحیت کو کمزور کرتے ہیں کہ وہ آزادانہ اور مؤثر طریقے سے ریاست کی دیگر شاخوں کی زیادتیوں کے خلاف کام کرسکے اور انسانی حقوق کا تحفظ کر سکے‘‘۔ آئی سی جے نے تنقید کی کہ بل کو بہت تیزی سے ایک قانون میں تبدیل کیا گیا اور کہا کہ مجوزہ ترمیم کو خفیہ رکھا گیا تھا اور پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور منظور کرنے سے قبل عوامی مشاورت نہیں کی گئی۔ بیان میں کہا گیا، ’’یہ تشویشناک بات ہے کہ ایک اہم اور عوامی دلچسپی کی حامل آئینی ترمیم کو اتنے خفیہ طریقے سے اور 24 گھنٹوں سے بھی کم عرصے میں منظور کر لیا گیا‘‘۔ کانٹن نے کہا کہ ’’قانون کی حکمرانی اور اختیارات کی تقسیم کا بنیادی اصول، جس کے تحت شہری اور ان کے آزادانہ منتخب کردہ نمائندے قانون سازی کے عمل میں حصہ لینے کا حق رکھتے ہیں کو اس معاملے میں کھلے طور پر پامال کیا گیا‘‘۔ آئی سی جے نے نشاندہی کی کہ ترمیم میں کی گئی تبدیلیاں عدلیہ کی آزادی کو سنگین طور پر نقصان پہنچاتی ہیں، کیونکہ انہیں غیر ضروری طور پر ایگزیکٹو اور پارلیمانی کنٹرول کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے عدالتی کمیشن کی تشکیل میں تبدیلیوں پر تنقید کرتے ہوئے آئی سی جے نے کہا کہ یہ تبدیلیاں کمیشن میں براہ راست سیاسی اثر رسوخ کی اجازت دیتی ہیں اور جے سی پی کے عدالتی اراکین کو اقلیت میں تبدیل کر دیتی ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ جے سی پی کو آئینی بینچز بنانے کا اختیار دینا، ادارے کو مخصوص کیسز سننے کے لیے مخصوص بینچز بنانے کی اجازت دے گا، جس میں سیاسی اہمیت کے حامل کیسز بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ’’اس کے نتیجے میں، اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ جے سی پی کے مقرر کردہ بینچز آزاد اور غیر جانبدار نہیں ہوں گے‘‘ ۔ آئی سی جے نے نا اہل ججز کو ہٹانے سے متعلق تبدیلیوں پر بھی تنقید کی، یہ کہتے ہوئے کہ ترمیم میں نا اہلی کی نہ تو کوئی تعریف کی گئی ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی حد یا معیار مقرر کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا، ’آئی سی جے سمجھتی ہے کہ موجودہ عدالتی نظام میں کچھ اصلاحات کی ضرورت تھی تاکہ عدالتیں زیادہ مؤثر اور جوابدہ بن سکیں اور عدالتی تقرر کے عمل کو زیادہ شفاف اور جامع بنایا جا سکے‘‘۔ لیکن یہ ترامیم عدلیہ کو ماتحت کرنے اور اسے ایگزیکٹو کے کنٹرول میں لانے کی کوشش ہیں، جو قانون کی حکمرانی اختیارات کی تقسیم اور عدلیہ کی آزادی کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ (روزنامہ ڈان کراچی، 22 اکتوبر 2024ء)

کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ 26 ویں آئینی ترمیم شریف حکومت کا کام ہے۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے مگر اس کی پشت پر جرنیل کھڑے ہیں۔ قوم کو فتح کرنے کی نفسیات اپنی اصل میں جرنیلی نفسیات ہے اور اس نفسیات کا سراغ 1954ء سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان میں کسی جرنیل یا کسی فوج کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس وقت نہ کوئی جرنیل موجود تھا نہ کوئی فوج وجود رکھتی تھی۔ مگر اس کے باوجود جنرل ایوب 1954ء میں ملک اور قوم کو فتح کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ وہ امریکا کے ساتھ خفیہ مراسلت کررہا تھا۔ وہ امریکا کو بتارہا تھا کہ پاکستانی سیاست دان سخت نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کردیں گے اور فوج انہیں ایسا نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب جس وقت یہ کہہ رہے تھے ملک کو قائم ہوئے صرف سات سال ہوئے تھے اور اس وقت تک ملک کی سیاسی قیادت کو نااہل اور ملک تباہ کردینے والی قرار دینا کسی بھی طرح مناسب نہیں تھا۔ اس وقت تک لیاقت علی خان جیسے مدبر رہنما پاکستان کی قیادت کررہے تھے۔ خواجہ ناظم الدین اور حسین سہروردی جیسے سیاسی رہنما ہمارے پاس موجود تھے اور جنرل ایوب ملک و قوم کو فتح نہ کرتے تو یہ لوگ مل جل کر پاکستان کو عظیم ملک بنادیتے مگر 1951ء میں لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا۔ اس وقت لیاقت علی خان کی شہادت کا کوئی ’’بین الاقوامی تناظر‘‘ نہیں تھا۔ خواجہ ناظم الدین کے خلاف روزنامہ نوائے وقت نے مہم چلائی اور انہیں چند چیزوں کی بازار میں عدم دستیابی پر ’’قائد قلت‘‘ کا خطاب دے کر معزول کردیا گیا۔ حسین سہروردی 1963ء میں بیروت کے ایک ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔

جنرل ایوب اس سال تک ملک و قوم کو فتح کرتے رہے۔ ان کی دس سالہ کارکردگی مایوس کن تھی مگر اس کے باوجود انہوں نے دس سالہ کامیابیوں کا جشن منایا۔ ان کا فرض تھا کہ دس سال کے بعد وہ قیادت سول قیادت کو سونپ دیتے، مگر ہوا یہ کہ ملک و قوم کو فتح کرنے کے لیے جنرل یحییٰ سامنے آئے۔ 1970ء کا سیاسی بحران پیدا ہوا تو ہمارے جرنیلوں نے ایک نئی انگڑائی لی۔ جنرل نیازی کو مشرقی پاکستان بھیجا گیا تو انہوں نے قوم کی اکثریت بنگالیوں کو دھمکی دی کہ ہم تمہاری عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ تمہاری نسل بدل کر رہ جائے گی۔ ایسا تو نہ ہوسکا البتہ پاکستان کا جغرافیہ اور پاکستان کی تقدیر بدل کر رہ گئی۔ پاکستان ٹوٹ گیا اور ہمارے 92 ہزار فوجیوں نے ذلت کے ساتھ بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔ اس سانحے کے بعد جرنیلوں کو چاہیے تھا کہ وہ ملک و قوم کو فتح کرنے کے شوق سے باز آجاتے مگر 1977ء میں جنرل ضیا الحق نے ملک و قوم کو فتح کرلیا۔ 1999ء میں جنرل پرویز نے ملک و قوم کو فتح کرنے کا شوق پورا کیا۔ جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ بھی ملک و قوم کو فتح کرتے رہے ہیں۔ جنرل عاصم منیر کی شہرت یہ ہے کہ وہ سید بھی ہیں اور حافظ بھی اور اقبال کے شیدائی بھی مگر افسوس کہ ان سب کے باوجود 2024ء کے انتخابات دن دہاڑے اغوا کرلیے گئے۔ ان کے نتائج بدل ڈالے گئے، پورے پنجاب سے پی ٹی آئی جیت رہی تھی اسے ہرا دیا گیا اور اب ملک و قوم پر 26 ویں آئینی ترمیم مسلط کرکے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو بے اختیار کردیا گیا ہے۔ کیا یہی سیدوں، حافظوں اور اقبال کے شیدائیوں کا شیوہ ہے۔ اقبال نے کہا تھا۔

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی

مگر بدقسمتی سے پاکستان کے جرنیل قوم کو آزاد نہیں دیکھنا چاہتے وہ اسے ہر اعتبار سے اپنا غلام دیکھنا چاہتے ہیں۔ سیاسی غلام، معاشی غلام، آئینی غلام، ابلاغی غلام۔