دلیر اور اصول پرست سیاستدان بابا حیدر زمان

225

یہ دنیا فانی ہے جس سے کوچ کر کے ہر ذی روح کو اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہونا ہے لیکن اس دنیا میں کچھ ایسی عظیم ہستیاں بھی ہوتی ہیں جو ایسے کارہائے نمایاں انجام دیتی ہیں کہ اہل زمانہ اگر ان کو بھلانا بھی چاہیں تو بھلا نہ سکیں ایسے عظیم رہنما اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں بلا شبہ بابا حیدر زمان بھی ایسے لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے ملک کی کارآمد سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا اور سماجی طور پر لوگوں کی خدمت کے لیے کلیدی کردار ادا کیا انہوں نے اپنے سچے مشن کی تکمیل کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور سیاسی زندگی میں کبھی یو ٹرن نہیں لیا انہوں نے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں رنج و الم میں مبتلا کیے گئے مگر وہ دبنے جھکنے آمر بادشاہوں کے ساتھ سمجھوتا کرنے کے بجائے دارو رسن کو چومتے ہوئے دلیرانہ ودیوانہ وارآگے بڑھتے رہے ان کی سیاسی وسماجی خدمات کا عرصہ نصف صدی سے زیادہ ہے۔ انہوں نے ملکی سیاست میں جس طرح دلیرانہ کارنامے انجام دیے اور مخالفین کے لاؤ لشکر اور اقتدار واختیار کی پروا نہ کرتے ہوئے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا وہ اس لازوال کردار کی وجہ سے عوام کے دل ودماغ زندہ تابندہ ہو گئے۔

مرا مرقد میرے احباب کے سینے ہوں گے
تودہ خاک کو مت جانیو تربت میری

بابا حیدر زمان نے ابتدائی وثانوی دینی ودنیاوی تعلیم ایبٹ آباد میں حاصل کی گریجویشن کے بعد ائر فورس میں ملازم ہوگئے اور صرف دو سال بعد استعفا دے کر ملکی سیاست میں حصہ لیا اور ہزارہ کی سیاست میں ہلچل پیدا کردی وہ ایوب خان کے دور حکومت میں ایبٹ آباد کے ڈسٹرک ممبر منتخب ہوئے پھر 1985کے غیر جماعتی الیکشن میں اپنے آبائی علاقے سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور صوبائی کابینہ میں وزیر محنت کا قلمدان سنبھالا اور علاقے کے عوام کی بلا تفریق رنگ ونسل مسلک ومشرب خدمت ِ کی بابا جس خوبی نے ان کے ہم عصر سیاستدانوں سے ممتاز کیا وہ ان کی بہادری تھی وہ علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تصویر تھے۔

تو اگر مدبر ہے تو سن میری صدا
ہے دلیری ارباب سیاست کا عصا

جنرل پرویز مشرف کے دور میں وہ ایبٹ آباد کے ڈسٹرک ناظم منتخب ہوئے یہی وہ دور تھا جب 2005 کو مغربی سامراج نے ہارب ٹیکنالوجی کے ذریعے کشمیر اور سرحد صوبہ میں خوفناک زلزلہ برپا کیا جس میں ہزاروں لوگ شہید وزخمی ہوئے اور لاکھوں بے گھر ہزارہ ڈویژن سب سے زیادہ متاثر ہوا بابا نے ضلع ایبٹ آباد کے میں شاہراہ کے کنارے ایک گاؤں کھوکھر میرا میں مکمل جدید سہولتوں کے ساتھ ایک بڑی خیمہ بستی بنائی جس میں رہائشی خیموں کے ساتھ مساجد واسکول بھی قائم کیے اہل کراچی دل کھول کر اس موقع پر بابا کے توسط سے عوام کی خدمت کی کراچی اساتذہ اور ڈاکٹرز نے کئی کئی دن رضاکارانہ خدمات انجام دیں میں متعدد مرتبہ بابا کو دیکھا وہ یخ بستہ ٹھٹھرتی سردی کی راتوں کو رات دو بجے لوگوں میں سامان تقسیم کر رہے ہوتے 2010 میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے جب سرحد کا نام بدل کر کے پی کے رکھا گیا تو بابا نے اس لسانی نام وتقسیم کو مسترد کر دیا اور تحریک صوبہ ہزارہ قائم کی اس وقت ہزارہ تمام سیاسی خانوادے بابا کی قیادت اس پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے عوام کی بابا کے ساتھ محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ چلچلاتی دھوپ میں بابا کے استقبال کے لیے روڈوں پر کھڑے رہتے مجھے یاد ان دنوں بابا نے ہزارہ شمالی سرحد آلائی سے جنوبی سرحد جہادی کس تک لانگ مارچ کا اعلان کیا مارچ کے دوسرے روز میں حویلیاں میں تھا لوگ سارا دن بابا جلوس کا انتظار کرتے شاید ہزارہ کی تاریخ میں کسی اور رہنما کو اتنی شہرت وعزت نہیں ملی 2010 کے احتجا ج کے دوران اس وقت ایبٹ آباد میں خیبر پختون خوا میں برسر اقتدار پارٹی اے این پی کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی بدترین فائرنگ کروا کر ڈیڑھ درجن سے زائد کارکنوں کو شہید اور دو درجن سے زائد کارکنوں کو شدید زخمی کردیا بابا کے احتجاج میں مزید شدت آگئی، صوبہ ہزارہ کے قیام کا مطالبہ زور پکڑ گیا 2013 ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی میں صوبہ ہزارہ کے قیام کے لیے آواز اٹھائی تو خیر سگالی کے طور پر بابا 90 کراچی کا دورہ کیا جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا انہوں نے اس دوران ایک بڑے جلسہ عام سے بھی خطاب کیا۔ اس دوران بہت سے لوگ ذاتی مفادات کے لیے بابا کا ساتھ چھوڑ گئے مگر سردار گوہر زمان سلطان العارفین سردار رمضان ان کے ساتھ کھڑے رہے 24 اکتوبر 2018 کو بابا حیدر زمان اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے مگر ان کا مشن زندہ ہے ان کے جانشین ان کے مشن کی تکمیل کے لیے ہمہ تن مصروف ہیں جس کا اظہار بابا جلال الدین آڈیٹوریم چناروں کے شہر ایبٹ آباد میں 24 اکتوبر کو کیا گیا بابا اہل ہزارہ کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

کلیوں کو میں سینے کا لہو دیکر چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
تاریخ کے اوراق میں زندہ رہوں گا
اور تاریخ میرے نام کی تعظیم کرے گی