اسلام آباد( آن لائن) سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بجائے ترمیمی آرڈیننس کے تحت بنائی گئی ججزکمیٹی میں نا جانے اور خصوصی بنچ کا حصہ نہ بننے کے لیے چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھ دیا۔یہ خط انہوں نے اس وقت لکھا ہے جب قاضی فائز عیسیٰ ریٹائر ہونے والے ہیں اور ان کی مدت ملازمت میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہے ۔ واضح رہے کہ پہلے حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت ججز کمیٹی قائم کی تھی جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر شامل تھے تاہم بعد ازاں اس کو کمیٹی کو تبدیل کرتے ہوئے ایک آرڈیننس کا سہارا لیتے ہوئے نئی کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں چیف جسٹس خود تھے اور ان کے ساتھ جسٹس منصور علی شاہ تھے اور تیسرے جج جسٹس امین الدین خان کو شامل کیا گیا تھا اور اس کمیٹی کے ذریعے جو خصوصی بینچ کی تشکیل کی جا رہی تھی جس نے ٹیکس کے معاملات کو دیکھنا تھا اس کے بارے میں جسٹس منصور علی شاہ نے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھا ہے جس میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ لوگ ہمارے اعمال دیکھ رہے ہیں، تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے خصوصی بینچ میں بیٹھنے سے انکارکردیا، جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں کہا ہے کہ پہلے بھی لکھا ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ تک خصوصی بینچز کا حصہ نہیں بنوں گا۔یہ بھی یاد رہے کہ جسٹس منصورعلی شاہ عمرے کے لیے روانہ ہوں گے۔اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ بارے ہونے والے فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ پہلے بھی لکھا تھا ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ بیٹھنے تک خصوصی بنچز کا حصہ نہیں بنوں گا، جسٹس منصور علی شاہ نے نیا خط 23 اکتوبر کو لکھاخط میں سر تھامس مورے کا قول بھی نقل کیا گیا ہے خط چیف جسٹس کو بطور سربراہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی لکھا گیا۔جسٹس منصورعلی شاہ کے خط میں سر تھامس مورے کا قول بھی لکھا گیا ہے، سر تھامس مورکہتے ہیں “جب سیاستدان اپنے عوامی فرائض کی خاطر اپنے ذاتی ضمیر کو ترک کر دیتے ہیں تو وہ اپنے ملک کی تباہی کی جانب مختصر راستے پر رہنمائی کرتے ہیں۔انہوں نے لکھا کہ ہم اقتدار میں رہتے ہوئے اکثر بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے لوگ ہمارے اعمال کو دیکھ رہے ہیں، تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔