آئین پاکستان اور فہم دین (آخری حصہ)

291

رسول اللہؐ کی زندگی کے اس اہم مقام کا مطالعہ کرکے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاسی، دینی تحریکوں کے سربراہان اور کارکنان کو بھی چاہیے، کہ وہ لا آف دی لینڈ اور رائج قوانین پر بھرپور نظر رکھیں اور اس حوالے سے حالات و واقعات پر سنجیدگی سے دلچسپی لیں، چاہے وہ تحریک کے کسی بھی مرحلے پر ہوں لیکن خاص طور پر جب وہ ابتدائی دعوت کے مرحلے میں ہوں، سیاسی طاقت کے لحاظ سے وہ کمزور ہوں۔ نظام کی اچھی چیزوں میں مزید اچھی چیزیں داخل کرنے اور کسی اچھی چیز کو خارج نہ ہونے دینے کی کوشش، یہ بھی نیک کاموں میں سے نیک کام اور اچھے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے۔ اور اس مقصد میں کوئی بھی انسان (چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو)، کوئی بھی گروہ، کوئی بھی جماعت و تنظیم ہمراہ اور ہم رکاب نظر آئے جس کا کم سے کم ایجنڈا یکساں یا ہم خیال ہو اور وہ مشترکہ ظالم نظام یا قوت کے خلاف ہوں تو باہمی حمایت، تعاون اور اتحاد کا معاملہ ہوناچاہیے۔

دوسری مثال سیرت النبی کے ابتدائی دور کی ہے اور وہ بھی ایک معاہدے سے متعلق ہے۔ اور وہ ہے حلف الفضول (یعنی حقوق کو اس کے حقدار کی طرف پلٹانے کا وعدہ) کے معاہدے کا دوبارہ اجرا۔ قبل از نبوت یہ رسول اللہؐ کی زندگی کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور اِس کی ہمارے موضوع سے گہری وابستگی ہے۔ رسول اللہؐ مکے میں نوجوانی کے دور میں ایک ایسے اجتماعی معاہدے میں شریک ہوئے جس میں یہ وعدہ کیا گیا کہ وہ ہر مظلوم اور کمزورحقدار کو اس کا حق دلائیں گے چاہے وہ قرشی ہو یا غیر قرشی۔ اِس تحریک میں ایسے ہی لوگ شامل ہوئے جو عرب کے معاشرے میں جاری معاشرتی مسائل اور طاقتورکے ظلم وستم کو دیکھ کر تنگ آچکے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو سلیم الفطرت ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی، جرأت اور شجاعت سے بھی معمور تھے۔

چند قبائل ِ قریش بشمول بنو ہاشم عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے اور آپس میں عہد و پیمان کیا کہ مکّہ میں کوئی بھی مظلوم نظر آئے، خواہ وہ مکے کا رہنے والا ہو یا کہیں اور کا ہم سب اس کی مدد و حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اِس اجتماع میں رسول اللہؐ بھی موجود تھے اور بعد میں شرفِ رسالت ملنے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ ’’عبداللہ بن جدعان کے مکان پر میں ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے بدلے سرخ اونٹ بھی پسند نہیں‘‘۔ ان الفاظ کے بعد آپ نے ایک نہایت اہم بات فرمائی جو بہت زیادہ غور طلب ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’’اگر اسلام میں (یعنی آج بھی بحیثیت ِ رسول اللہ) اس عہد و پیمان کے لیے مجھے بلایا جائے تو میں اسے قبول کروں گا‘‘۔

حلف الفضول ماضی میں کیے گئے بنوقطور اور بنوجرہم کے حلف الفضول سے ہی ماخوذ تھا کہ ایسا بندوبست کیا جائے کہ آئند کوئی کسی کی حق تلفی نہ کرے کسی کا حق غضب نہ کر سکے، دغا بازی اور دھوکہ دہی نہ کر سکے۔ پوری قوم کی حمیّت دائو پر نہ لگا دے۔ رسول اللہؐ کے زمانے میں معاہدہ دوبارہ رقم کیا گیا جس کا نام بدستورِ سابق حلف الفضول رکھا گیا۔ اِس معاہدے کی روح مندرجہ ذیل باتیں تھیں۔

۱۔ ہم ایک دوسرے کی حق تلفی نہیں کریں گے۔

۲۔ ہم قوی سے ضعیف اور مقیم سے مسافر کا حق دلوا کر رہیں گے۔

۳۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کرتے رہیں گے خواہ وہ کسی قبیلے کے ہوں۔

۴۔ کسی ظالم یا غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔

معاہدے پر اتحاد اور اِس پر مرتے دم تک التزام کا حلف لینے کے بعد حاضرین نے اس پر اپنی اپنی شہادت ثبت کی جن میں رسول اللہؐ بھی شامل تھے۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ اس حلف کے اہمیت کے بارے میں رسول اللہؐ کے فرمان کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ اقامت دین کی جدوجہد کا یہ اساسی عمل ہے کہ ظلم کی مذمت کی جائے، اس کے خلاف جدوجہد کی جائے، مظلوم کی حمایت میں آگے آیا جائے۔ غور کریں کہ حلف الفضول ایک پراناحلف تھا جو انسانی ہمدردی، عزت و غیرت، شرافت، بہادری، شجاعت، قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف کی سربلندی کے لیے تھا۔ یہ کوئی وحی یاکسی نبی کی ترویر نہیں تھی بلکہ سلیم الفطرت لوگوں کے دل کی آواز تھی۔ جس پر اللہ کے رسولؐ نے نہ صرف اپنی جوانی میں دستخط کیے بلکہ امت کو اس کام کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی اور اقامت دین کے مشن کے لیے بھی اس کی اہمیت بتائی۔ آپؐ نے اس معاہدے کی شقوں پر زندگی بھر نہ صرف انفرادی طور پر عمل کیا، دوسروں کو تلقین کی بلکہ اس پر مبنی (یا اس بھی بہتر دین اللہ کا) نظام بھی نافذ کیا۔ مقصود یہ ہے کہ پاکستان کا آئین جیسا بھی ہے اس کی لکھنے والے مسلمان ہی ہیں جن میں علمائے کرام اور اسکالرز شامل تھے۔ اس کی دفعات اور شقوں کی غالب اکثریت یا تو اسلامی ہے یا اسلام کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ جب تک اس سے بہتر کوئی چیز نہیں آتی، اس آئین کا نافذالعمل رہنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ اس کی روح کے خلاف، انسانی حقوق کے خلاف، عدل انصاف کے منافی کوئی ترمیم کرنا اس میں کسی اچھی، عوام الناس کے لیے فائدہ مند چیز کو نکالنا یا اس میں کسی غلط اور ظلم پر مبنی چیز کا داخل کرنا یا آئین کو سرے سے معطل ہی کرنے کی کوششوں کے سامنے اپنی استطاعت کے مطابق بھرپور مزاحمت کرنا ایک انتہائی ضروری، منطقی، حکیمانہ بات اور ایک طرح سے دینی تقاضا ہے۔

جس طرح ملک میں بدنیتی اور انسانی حقوق کے منافی قوانین بنائے جارہے ہیں جس کی مثال آرمی ایکٹ اور آفشل و سیکرٹ ایکٹ ہیں جن کی بعض شقوں پر انسانی حقوق اور جماعتی حقوق کی تنظیموں کو سنجیدہ تحفظات ہیں اور یہ سب ماضی قریب کی باتیں ہیں، یہ سب چیزیں نہ صرف پاکستان کی عوام کے حقوق بلکہ سیاسی، مذہبی اور اقامت دین کی جدوجہد کرنے والوں سب کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہیں۔ جب کہ تمام تحریکات کے رفقاء اور دیگر پاکستانیوں کو انہی قوانین کے اندر رہ کر کام کرنا ہے۔

آخر میں اسلامی دینی تحریکات بشمول علماء کرام کے سامنے راقم کی حقیر رائے یہ ہے کہ جب تک وہ خود اس پوزیشن پہ نہیں آتے کہ وہ نئے قوانین بنا سکیں جو اسلام سے مطابقت رکھتے ہوں یا قوانین کو اسلامائز کر سکیں تو اس وقت تک پاکستان کے آئین اور قوانین کو سمجھنا، اس پر غور کرنا اور اس سے لاتعلق اور بے گانہ رہنے کے بجائے اس کی بقاء اور قیام کے لیے جدوجہد کرنا اور اسی طرح پاکستان کی عدلیہ کی آزادی اور شفافیت کے لے کوشش کرنا اور اس میں خلوص کے ساتھ بہتری لانے کی جہدکرنا اور اس کام کے لیے تمام پاکستانی طبقات میں سے حلیف اور اتحادی تلاش کرکے ان کے ساتھ تعاون اور مشترکہ جدوجہد، مہارت (Expertise) اور استطاعت کے مطابق کرنا اور اس حوالے سے باطل اور ظالم طاقتور کے سامنے ہمت وحوصلہ کرنا اور مایوس بالکل نہیں ہونا عین اسلامی کام ہے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کا کام بہت حکیمانہ، مدبرانہ بلکہ دلیرانہ ہے جب وہ آئین و قانون پر عمل درامد کی بات کرتے ہیں، انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ یہ بہت زبردست اور قابل ستائش کام ہے۔

سو اس بات کا ادراک کرنا اور اس کو پلو سے باندھنا کہ پاکستان کا آئین چونکہ انسانی حقوق کی حفاظت کرتا ہے، نظام مملکت کے انتہائی ضروری اصول دیتا ہے اور یہ پاکستان کے اندر کراچی سے لے کر خیبر تک، لبرل دانشور سے لے کر دینی عالم تک، مسٹر سے لے کر ملا تک سب کے اندر کم از کم ان معاملات میں متفقہ ہے تو یہ بہت بڑی غنیمت اور پاکستانی عوام کی کامیابی ہے۔ اور یہی موجودہ وقت میں دعوت اور اقامت کے اس مرحلے میں فہم دین کا بہت حساس، اہم اور ضروری حصہ ہے۔