حریت کا چراغ بجھا نہیں، روشن ہوا ہے

289

فلسطین کی سرزمین ایک ایسا میدانِ عمل بن چکی ہے جہاں ہر شہادت جدوجہد کا نیا باب کھولتی ہے، اسماعیل ہنیہ، حسن نصراللہ، اور یحییٰ السنوار، جیسے رہنماؤں کی زندگیوں اور قربانیوں نے فلسطین کی آزادی کے خواب کو جلا بخشی ہے، ان شخصیات نے نہ صرف عملی جدوجہد سے بلکہ اپنے خون سے بھی مزاحمت کی داستان رقم کر کے اپنے ربّ کے حضور پیش ہو گئے، ان تینوں عظیم رہنمائوں نے اپنی شہادت سے یہ ثابت کیا کہ آزادی کے لیے جدوجہد محض نعرہ نہیں بلکہ ایک عملی فریضہ ہے، اسرائیلی قبضے اور جبر کے خلاف کھڑے ہونے والے ان رہنمائوں نے نہ صرف موت کو گلے لگایا بلکہ فلسطین میں نئے جذبے اور حوصلے کو جنم دیا، اور اْن کی قربانیوں نے فلسطینیوں کے حوصلے کو مزید مستحکم کیا، یہی وجہ ہے فلسطین آج بھی محاذ جنگ بنا ہوا ہے، ہر گلی، ہر مکتب، اور ہر گھر مزاحمت کا استعارہ بن چکا ہے۔ غزہ کے عوام جنہیں مسلسل محاصرے اور بمباری کا سامنا ہے، ان رہنماؤں کی قربانیوں سے حوصلہ لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ شہادتیں محض افراد کا نقصان نہیں بلکہ ایک اجتماعی جدوجہد کی گواہی ہیں، یہ بات روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیلی مظالم اور بین الاقوامی خاموشی کے باوجود فلسطینیوں کا عزم ٹوٹا نہیں۔ یحییٰ السنوار، اسماعیل ہنیہ، اور حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں کی قربانیاں بتاتی ہیں کہ مزاحمت کا سفر ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا ہے۔ ہر شہید کا خون زمین پر گر کر نئی امیدوں اور خوابوں کی آبیاری کرتا ہے، جبکہ دوسری جانب چینی مندوب کی جانب سے اقوام متحدہ کے ایک ہنگامی اجلاس میں یہ بتایا گیا کہ اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک امریکا نے اسرائیل کو 17 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی ہے، جس میں زیادہ تر فوجی امداد شامل ہے۔ اس رقم میں اسرائیل کی دفاعی ضروریات، اسلحے کی فراہمی، اور عسکری ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز شامل ہیں۔ اس کے دفاعی نظام، جیسے آئرن ڈوم جس کے ذریعے میزائل دفاعی سسٹم، کو مستحکم بنانا ہے اور یہ امداد اسرائیل کی افواج کو مضبوط کرنے کے لیے دی جاتی ہے، جس کا مقصد خطے میں اسرائیل کے عسکری برتری کو برقرار رکھنا ہے۔

تاہم، اس بڑے پیمانے پر مالی اور عسکری امداد کے باوجود، فلسطینی عوام کے حوصلے بلند ہیں۔ غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں رہنے والے لوگ سخت ترین حالات میں بھی اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے عزم اور مزاحمت میں کمی نہیں آئی۔ ہر شہید کا خون فلسطینی عوام کو مزید متحد کرتا ہے، اور ان کی جدوجہد کو مزید تقویت دیتا ہے۔ غزہ کے عوام، جو مسلسل محاصرے اور حملوں کا شکار ہیں، اپنی مزاحمت کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ ثابت کر رہے ہیں کہ مظلومیت کے باوجود آزادی کے خواب کو نہیں دبایا جا سکتا۔ فلسطینی عوام کے بلند حوصلے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آزادی کی جدو جہد محض طاقت کے سامنے جھکنے سے ختم نہیں ہوتی۔ امریکی امداد اسرائیل کی عسکری قوت کو مضبوط تو بنا سکتی ہے، لیکن فلسطینی عوام کی قوتِ ارادی اور آزادی کی خواہش کو کبھی شکست نہیں دے سکتی۔

دی گارڈین، اسرائیل ٹائم اور دیگر ذرائع نے بھی اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ چین نے غزہ کے جاری تنازع کے درمیان اسرائیل کو امریکی فوجی امداد پر شدید تنقید کی ہے، چین کا استدلال ہے کہ امریکا کی وسیع تر حمایت امن کو فروغ دینے کے بجائے تشدد کو ہوا دیتی ہے، اور اسرائیل کے ردعمل کو غیر متناسب قرار دیتے ہوئے تنقید کی ہے، خاص طور پر غزہ میں شہری ہلاکتوں جس میں معصوم بچوں اور عورتوں اور بے شمار مسائل کے باوجود، فلسطینیوں کے حوصلے بلند ہیں، کیونکہ چین خود کو امریکی پالیسی کے برعکس امن کے حامی کے طور پر پیش کرتا ہے، اور فلسطینی عوام نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کی جدوجہد عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتی رہے گی جو تماشا بنی اس ظلم و درندگی کو دیکھ رہی ہے، یہ شہادتیں نہ صرف فلسطین بلکہ دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے مشعل ِ راہ ہیں۔ ان کی قربانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ظلم کے سامنے خاموش رہنا جرم ہے، اور آزادی کی راہ میں دی جانے والی جانیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔ ہر شہادت اس عہد کی تجدید ہے کہ مزاحمت کا سفر جاری رہے گا، جب تک حریت کے متوالے میدان میں موجود ہیں، فلسطین کی آزادی کی شمع بجھ نہیں سکتی، کیونکہ یہ چراغ بجھائے نہیں جا سکتے یہ ہر بار پہلے سے زیادہ تابناک ہو کر جلتے ہیں، اور آنے والی نسلوں کے لیے ہدایت کا نشان بنتے ہیں، یہ معرکہ محض زمین کا نہیں، بلکہ عزت، وقار، اور بقا کی جنگ ہے۔ شہادتوں کے یہ چراغ بجھائے نہیں بجھتے؛ ان کی لو زمانے کے جبر و ستم کو چیرتی ہوئی نئی نسلوں کے دلوں میں اترتی ہے۔ مزاحمت کی یہ وراثت، جو خون سے لکھی گئی ہے، وقت کے پنچھیوں کے پروں پر سوار ہو کر تاریخ کے افق پر ہمیشہ روشن رہے گی۔ آنے والا کل گواہی دے گا کہ وہ قومیں جو خاک و خون میں پلتی ہیں، شکست سے ناآشنا ہوتی ہیں۔ ہر شہید کا خون گویا ایک عہد ہے، یہ جدوجہد صرف جنگ کے خاتمے تک محدود نہیں، بلکہ ایک ازلی نصب العین کی حفاظت کا وعدہ ہے— ایسا وعدہ جسے نہ طاقت کا غرور مٹا سکا، نہ بندوقوں کی گھن گرج خاموش کر سکی ہے یہ داستان، جو شہادتوں سے مرتب ہوئی، آنے والے وقتوں میں حسن نصرہ اللہ، اسماعیل ہنیہ، یحییٰ النسوار جیسے عظیم ہیروز کا قصہ سنائے گی جنہوں نے اپنی حیات کا ہر لمحہ آزادی کی شمع کو روشن رکھنے میں صرف کیا۔ اسی شمع کی روشنی میں فلسطین کے آسمان پر نئی صبح کا سورج ایک دن ضرور طلوع ہوگا۔ ان شاء اللہ