یہ دیکھو میرا نامِ زندگی… روشنی ہی تو ہے

290

یحییٰ سنوار کی شہادت پر ایک عرب نے ٹویٹ کیا ’’ہم نوے سال سے گا رہے ہیں ’’صلاح الدین کہاں ہے؟‘‘ جب وہ آیا تو ہم نے اُسے ٹینکوں اور طیاروں کے سامنے چھڑی کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا‘‘۔ یہ دل چیر دینے والا سچ ہے۔ لیکن اس سچ کی ایک مزید سفاکی یہ ہے کہ صرف یحییٰ کو نہیں بلکہ پوری فلسطینی قوم کو ٹینکوں اور طیاروں کے سامنے پھینک دیا گیا ہے، اور 57 اسلامی ممالک کے ساتھ دیگر اقوام بھی یہ سب ایک تماشے کی طرح دیکھ رہے ہیں۔ نسل کشی کے اس تماشے کو 18 اکتوبر 2024ء میں 378 روز گزر چکے ہیں، روز درجنوں فلسطینی شہید اور زخمی ہورہے ہیں، ان سیکڑوں دنوں میں کوئی دن ایسا نہیں کہ اسرائیل کے ٹینک اور طیارے غزہ پر بارود نہ برسائیں۔ غزہ کی 95 فی صد آبادی بے گھر ہوچکی ہے، تقریباً نصف لاکھ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور اُس سے کہیں زیادہ معذور ہوچکے ہیں۔ غزہ میں انسانی امداد (کھانے پینے اور ضرورت کی دیگر اشیا اور ادویات) بند کردی گئی ہیں۔ غزہ کی تقریباً تمام آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، صہیونی افواج غزہ کے تمام فلسطینیوں کو بھوکا پیاسا مارنے کے درپے ہیں۔ لیکن ان سارے مصائب کے باوجود غزہ کے ثابت قدم لوگ اپنے صبر اور استقامت کے ساتھ جلد دشمن کے غرور کو توڑنے اور ان کے منصوبوں کو خاک میں ملانے کا عزم اور یقین رکھتے ہیں۔

یحییٰ سنوار اسی قوم کے ایک پُرعزم اور بہادر رہنما تھے، ایک ایسے رہنما جس نے فرنٹ لائن پر اپنے چند سپاہیوں کے ساتھ مزاحمت کی، جنگ لڑی اور شہید ہوگئے۔ اس وقت جبکہ اسرائیل نے بار بار ان پر الزام لگایا کہ وہ عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں یا ڈالروں کی کرپشن میں ملوث ہیں یا ہم نے تو انہیں کئی ماہ قبل مار دیا ہے۔ لیکن اسرائیل کی سب باتیں اور دعوے جھوٹے تھے، وہ آخری دنوں میں چند سپاہیوں کے ساتھ فرنٹ لائن میں موجود تھے، اسرائیلی فوج کو زک پہنچا رہے تھے۔ حماس نے اپنے کمانڈر یحییٰ سنوار کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک سال کا پورا عرصہ محاذ جنگ آگے بڑھتے رہے، غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں دشمن سے نبرد آزما رہے، وہ جہاد و جدوجہد کی بھرپور زندگی کے بعد شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے، ان کی شہادت کے بعد کی تصویر انسانی مزاحمت کے لیے ایک عالمی علامت بن گئی ہے۔ یحییٰ 1962ء میں غزہ کے پناہ گزین کیمپ خان یونس میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان قدیم زمانے سے عسقلان میں رہتا جو خوبصورت ساحلی علاقہ اور عروس الشام کے لقب سے قدیم زمانے میں جانا جاتا تھا۔ جس پر 1948ء میں اسرائیل نے قبضہ کیا اور یہاں رہنے والے فلسطینیوں کو نکال باہر کیا۔ یحییٰ کا خاندان خان یونس میں پناہ گزین کیمپ میں رہنے لگا، اسی کیمپ میں انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ 1989ء میں انہیں گرفتار کرلیا گیا، انہیں قتل کا منصوبہ بنانے کے الزام میں چار بار عمر قید کی سزا سنا کر جیل میں پھینک دیا گیا، انہوں نے پون صدی اپنی زندگی کا عرصہ اسرائیلی جیلوں کے پُرتشدد ماحول میں گزارا۔ 2011ء میں ایک بااثر جنرل کے بیٹے گیلاد شالیت کے تبادلے میں رہا کیا گیا، 2017ء میں وہ حماس کے رہنما منتخب ہوگئے، 2024ء میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد وہ حماس کے قائد منتخب ہوئے۔ محض 3 ماہ بعد وہ اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔

ان کی شہادت پر عراقی صحافی اور بلاگر نے ایک پوسٹ میں لکھا کہ سنوار نے وہ زندگی گزاری جس کا وجود صرف شاعری ہی میں نظر آتا ہے۔ مصر کے جامع الازہر نے اُن کی موت کو فلسطینی مزاحمت میں ہیرو کی شہادت قرار دیا۔ مصری سیاستدان اور سابق صدارتی امیدوار نے سنوار کی موت کے بعد ایک تقریب میں کہا کہ آپ ہیرو کی طرح جیے اور شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے۔ دشمن کا سامنا کیا اور کسی ٹنل میں نہ چھپے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور ان کے ساتھ شہید ہوئے۔ مصری میڈیا نے سنوار کی موت پر فلسطینی شاعر کی شاعری اپنے چینل پر لگائی جس کا ترجمہ ہے: ’’اگر میں مرجائوں تو میری ماں تم رونا مت میں مروں گا تا کہ میرا ملک زندہ رہ سکے‘‘۔

اور ان کی ماں نہیں روئیں انہوں نے فخریہ کہا کہ یحییٰ زندہ ہے۔ اس کے نام کا مطلب ہی زندہ رہنے والا ہے اور انہیں تو شہادت کی موت حاصل ہوئی ہے۔ پاکستانی شاعر نجمہ ثاقب نے اپنی وال پر ان سے متعلق ایک نظم لگائی۔

چوب دستی
لہریں چیرے
پانی کاٹے
راہ بنائے
چوب دستی
جادو گر کے
پھنکے انچھر
چٹ کر جائے
چوب دستی
شعلہ خوں سے
جنگاہوں میں
آگ لگائے
چوب دستی
وار کرے اور
بھالے سے
مشعل بن جائے
یحییٰ کی چوب دستی آج یہ سارے کام کررہی ہے۔