عالمی یومِ خوراک پر ضیاءالدین یونیورسٹی کے تحت سیمینار

42
Seminar on World Food Day

کراچی : کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پروگرام، ضیاءالدین یونیورسٹی کی جانب سے عالمی یوم خوراک کے حوالے سے ’ ’ بہتر زندگی اور بہتر مستقبل کے لیے خوراک کا حق ‘ ‘ کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد عالمی سطح پر غذائی تحفظ اور پائیداری کے بارے میں بیداری پیدا کرنا، اہم اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تعاون کو فروغ دینا، اور خوراک سے متعلق چیلنجوں کے لیے اختراعی حل تلاش کرنا تھا۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایک صحت مند اور پائیدار خوراک کی فراہمی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ضیاءالدین یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عباس ظفر کا کہنا تھا کہ بھوک سے پاک دنیا کے حصول کے لیے، ہمیں چھوٹے پیمانے پر کسانوں کی حمایت، پائیدار زراعت کو فروغ دینے، خوراک کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے، اور غذائیت کی تعلیم میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر تشویشناک اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر عباس ظفر کا کہنا تھا کہ گلوبل ہنگر انڈیکس 2024 ءکے مطابق، 127 ممالک میں پاکستان 109 ویں نمبر پر ہے، جہاں کی تقریبا چھتیس فیصد آبادی کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق پاکستان کی تقریباّ بیس فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے اور پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً چار فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایس جی ایس پاکستان کے منیجر بزنس ڈیولپمنٹ ڈاکٹر مدثر نذیر نے خوراک کی آلودگی کے اہم مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے کرتے ہوئے کہا کہ کھیت سے لے کر صارفین تک، آلودگی کا بہت زیادہ خطرہ ہے، جو صحت عامہ کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

ڈاکٹر مدثر نذیر نے فوڈ سیفٹی کے عالمی معیارات پر سختی سے عمل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا تاکہ خوراک سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو مو¿ثر طریقے سے روکا جا سکے جو غیر محفوظ طریقوں سے پیدا ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان معیارات کی تعمیل صرف ایک ریگولیٹری ضرورت نہیں ہے بلکہ صارفین کی حفاظت کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔

اس موقع پر پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کے پرنسپل سائنٹیفک آفیسر ڈاکٹر ثاقب عارف نے پاکستان میں چاول کی پیداوار سے متعلق مخصوص فوڈ سیفٹی کے خدشات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ملک عالمی سطح پر چاول کا چوتھا بڑا برآمد کنندہ ہونے کے باوجود بین الاقوامی منڈیوں سے بار بار مسترد ہونے کی بنیادی وجہ چاول کے نمونوں میں افلاٹوکسن کی آلودگی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آلودگی کے یہ مسائل ہماری عالمی مسابقت کو نمایاں طور پر روکتے ہیں اور ایک قابل اعتماد سپلائر کے طور پر ہماری ساکھ کو متاثر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ثاقب نے نشاندہی کی کہ اس شعبے میں ترقی کے امکانات کافی ہیں، لیکن اسے حاصل کرنے کے لیے کوالٹی کنٹرول کے اقدامات کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس کوششوں کی ضرورت ہے۔

قبل ازیں اپنے خطبہ استقبالیہ میں، پروفیسر ڈاکٹر فہد عظیم، ڈین فیکلٹی آف انجینئرنگ، سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ مینجمنٹ، ضیاءالدین یونیورسٹی نے کہا کہ خوراک ایک عالمی انسانی حق ہے جو بنیادی ضرورت ہے۔ پھر بھی لاکھوں لوگ ہر رات بھوکے سوتے ہیں۔ جب ہم بھوک سے پاک دنیا کے لیے کام کر رہے ہیں، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خوراک کی حفاظت صرف لوگوں کو کھانا کھلانے سے کہیں زیادہ ہے۔