ناسا کا کشش ثقل کی لہروں کے لیے جدید ٹیلی اسکوپ کا پروٹو ٹائپ متعارف

90

واشنگٹن: ناسا نے خلا میں کشش ثقل کی لہروں کا پتہ لگانے کے لیے تیار کیے جانے والے چھ جدید ٹیلی اسکوپس کا فل اسکیل پروٹو ٹائپ پیش کر دیا ہے، جو کہ آئندہ دہائی میں خلا میں روانہ کیے جائیں گے۔ یہ مشن، جسے لیزر انٹرفیرومیٹر اسپیس اینٹینا (LISA) کا نام دیا گیا ہے، یورپی خلائی ایجنسی (ESA) کے تعاون سے کیا جا رہا ہے۔

LISA مشن کا مقصد کشش ثقل کی لہروں کا پتہ لگانا ہے، جو کہ بلیک ہولز کے ملاپ جیسی عظیم خلائی سرگرمیوں کے نتیجے میں خلا اور وقت میں پیدا ہونے والے جھٹکے ہیں۔ اس مشن کے تحت تین خلائی جہازوں پر مشتمل ایک مثلثی ترتیب میں لیزر شعاعوں کے ذریعے انتہائی درست فاصلے ناپے جائیں گے، جو پیکو میٹر (یعنی میٹر کا کھربواں حصہ) کی سطح تک ہوں گے۔

یہ وسیع خلائی جہازوں کی ترتیب تقریباً 1.6 ملین میل (2.5 ملین کلومیٹر) کے فاصلے پر مشتمل ہوگی۔ ناسا کے گڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے محقق ریان ڈی روزا کے مطابق، “ہر خلائی جہاز پر نصب جڑواں ٹیلی اسکوپس انفرا ریڈ لیزر شعاعوں کے ذریعے اپنے ساتھی خلائی جہازوں کے ساتھ رابطہ کریں گی۔”

ناسا اس مشن کے لیے تمام چھ ٹیلی سکوپس فراہم کر رہا ہے، اور یہ پروٹو ٹائپ، جسے انجینئرنگ ڈیولپمنٹ یونٹ ٹیلی اسکوپ کہا جا رہا ہے، مستقبل میں اصل آلات کی تیاری کے لیے رہنمائی کرے گا۔

یہ پروٹو ٹائپ مئی میں ناسا گڈارڈ میں ایک تاریک اور صاف کمرے میں معائنے کے مراحل سے گزرا۔ اسے زیروڈور نامی امبر رنگ کے شیشے کی سیرامک سے تیار کیا گیا ہے، جو انتہائی درجہ حرارت کے تحت بھی اپنی شکل برقرار رکھتا ہے، اور اس کی آئینہ کی سطح سونے کی پرت سے ڈھکی ہوئی ہے۔ یہ ڈیزائن خلا کی سردی میں گرمی کے ضیاع کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ انفرا ریڈ لیزر شعاعوں کی بہترین عکاسی کو ممکن بناتا ہے۔

یہ پروٹو ٹائپ L3Harris Technologies کی تیار کردہ جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے، جو LISA مشن کی اہمیت اور خلائی مواد میں ہونے والی ترقیات کو نمایاں کرتا ہے۔

LISA مشن کی لانچنگ 2030 کی دہائی کے وسط میں متوقع ہے، جو خلا کی وسعتوں میں کشش ثقل کی لہروں کے ذریعے فلکیاتی رازوں سے پردہ اٹھانے میں ایک انقلابی سنگ میل ثابت ہوگا۔