سفید پوشیاں بمعنی کفن پوشی

313

کہتے ہیں کہ مسائل کا سامنا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ کون وسائل مہیا کرنے والا ہے اور کون ان مسائل پر ہنسنے والا یہ حقیقت ہے کہ جب بھی آپ کو مسائل درپیش ہوں اور ان مسائل کے لیے وسائل درکار ہوں تو بہت سے چہرے کھل کر سامنے آ جاتے ہیں اور بہت سے چہرے چھپ جاتے ہیں اور بہت کم چہرے کام آتے ہیں پنساری کی دکان اور سیاسی شان دونوں ہی آٹے دال کا بھاؤ بڑی اچھی طرح بتاتی ہیں پنساری کی دکان سے تو ادھار مل جاتا ہے جبکہ سیاسی شان تقاضا کرتی ہے کہ ادھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں بہت ساری سیاسی پارٹیاں اور بہت سارے دعوے الیکشن ہونے سے پہلے الیکشن ہونے کے بعد اس دلہن کی طرح جسے شادی کا میک اپ دھو ڈالنے کے بعد پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے انتخابات کے بعد سیاسی دکانداروں کی دکانیں تھڑوں اور چوراہوں سے ہٹ کر منتخب ڈرائنگ رومز میں لگ جاتی ہیں اور ان ڈرائنگ رومز میں صرف عزیز و اقارب کی ضیافتیں ہوا کرتی ہیں ان سب باتوں کا احساس تب ہوا جب وفاقی اردو یونیورسٹی کی مالی زبوں حالی کے باعث وہاں کے ڈائریکٹر اف پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ پروفیسر زاہد شفیق بھٹی جو کہ ہمارے سرتاج ہونے کے منصب پر بھی فائز ہیں انہوں نے ایک دن چپکے سے کہا سنتی ہیں ذرا اپنے گلشن ٹاؤن سے ایک ٹریکٹر تو منگوا دیجیے گلشن کیمپس کے میدان میں کام آن پڑا ہے ہم نے فوراً لمحے بھر کی تاخیر کیے بغیر گلشن ٹاؤن کی اپنی ویمن کونسلر بہن سے ٹاؤن چیئرمین ڈاکٹر فواد صاحب کا نمبر مانگا انہوں نے ڈھیر سارے نمبر اٹھا کر دے دیے کہ ٹاؤن چیئرمین صاحب کے ساتھ ان کے دیگر متحرک رفقاء کار کے نمبرز بھی دے دیے جن میں خضر باقی صاحب اور آصف عبد الکریم صاحب سے رابطہ ہوا اور آخر کار آصف عبد الکریم صاحب نے وفاقی اردو یونیورسٹی گلشن کیمپس کے لیے وہاں کی یوسی کے شمشاد صاحب کی ٹیم کو پہلے وزٹ کروا کر کام کی نوعیت سمجھا دی یوں وفاقی اْردو یونیورسٹی گلشن کیمپس میں وی سی آفس سے ملحقہ میدان میں مٹی کے بڑے بڑے تودے نما ٹیلوں کو ہموار کرنے کا کام شروع ہوگیا جوکہ دو سے تین دن میں مکمل ہوگا اس دوران کاموں ہی کی دوڑ بھاگ میں آصف عبد الکریم صاحب

سے بات چیت ہوتی رہی اسی دن گلشن ٹاؤن کا کوئی آفیشل پروگرام تھا تو انہوں نے برسبیل تذکرہ گلشن ٹاؤن کے چیئرمین ڈاکٹر فواد صاحب کی طرف سے پروفیسر صاحب کے ہمراہ ہمیں اپنے اس پروگرام میں مدعو کیا کہ یونیورسٹی سے واپسی پر اس میں شرکت کے ساتھ ڈاکٹر صاحب سمیت پوری ٹیم سے ملاقات بھی ہو جائے گی سو ہم دن بھر کی تھکان کے باوجود صرف اپنے محسن گلشن ٹاؤن کی ٹیم سے ملاقات کا سوچ کر کراچی یونیورسٹی سے سیدھے میاں جی کے پاس وفاقی اردو یونیورسٹی پہنچے اور وہاں سے گلشن ٹاؤن کے دفتر روانہ ہو گئے آصف عبد الکریم صاحب نے تپاک سے استقبال کرتے ہوئے چیئرمین صاحب کے کمرے میں پہنچا دیا جہاں بیٹھے ہوئے چیئرمین ڈاکٹر فواد صاحب اور دیگر کو تکریم اساتذہ میں کھڑے ہوتے دیکھ کر احساس ہوا کہ یہ روایات کی پاس داریاں بھی تحریک سے وابستہ افراد نے ہی کندھوں پر اٹھا رکھی ہیں۔ تقریب کا آغاز ہوا تو اس کے آغاز و اختتام تک ہم مبہوت ہو کر دیکھتے رہ گئے کہ کس طرح حکومتی بجٹ کی ارزانی و گرانی کے باوجود صحرا کو گلشن اور گلشن کو گلشن بنائے رکھنے کی ہمیشگی و مداومت کے لیے کام کیے جارہے ہیں۔

یہ پروگرام اصل میں ٹیم ارکان و ورکرز کی حوصلہ افزائی کے سلسلے کی مہینوں سے چلتی ہوئی اک تقریب کا تسلسل تھا جس میں ہر ماہ بہترین کارکردگی دکھانے والے تین منتخب ورکرز کو ان کی خدمات کے اعتراف میں نہ صرف کیش پرائز اور اسناد سے نوازا جاتا ہے بلکہ ٹاؤن کے احاطے میں لگے بورڈ پر ان کی تصویر اور نام مہینے بھر کے لیے آویزاں کر کے قدردانی کا حق ادا کیا جاتا ہے۔

کراچی کے 25 ٹاؤنز میں گلشن ٹاؤن اپنی واحد مثال ہے کہ جہاں اس طرح کے کسی سلسلے کی ایک مثال نظر آئی اور اسی پر بس نہیں تھا بلکہ اس تقریب میں گلشن ٹاؤن نے اپنی 8 کی 8 یوسیز میں بلاتفریق فیومیگیشن اسپرے، واٹرنگ پمپ اور ایک لوڈنگ رکشے پر مشتمل ان تین ضروری اشیاء کا پیکیج تقسیم کیا باوجود اس کے کہ یہاں کی دو یوسیز، یوسی 1 اور یوسی 7 پیپلز پارٹی کی ہے انہیں بھی یہ پیکیج دیا گیا ہر چند کہ ان دونوں یوسیز کے چیئرمین حضرات کسی تقریب کے باعث نہ آ سکے مگر یہ خیر خواہی دیکھ کر رشک آیا کہ انہی کی اپنی حکومت جہاں بلدیاتی فنڈز کی ترسیل میں انصاف سے کام نہیں لیتی گلشن ٹاؤن نے ثابت کر دیا کہ ان کی تربیت کسی نظریاتی تحریک نے کی ہے۔جو تمہیں محروم کرے اسے دو کے حکم کے پیروکار ہیں۔ تقریب میں امیر کراچی جناب منعم ظفر صاحب کا خطاب بھی ’’خیر الناس من نفع الناس‘‘ تم سے بہتر لوگ وہ ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچاتے ہیں۔ پر مبنی تھا جس میں گلشن ٹاؤن کے اس اختیارات کو حقیقی معنوں میں نچلی سطح تک منتقل کرنے کے عزم کو سراہا گیا اور ساتھ ہی مئیر کراچی سے بھی درخواست کی گئی کہ اسی طرح وہ بھی حقیقی معنوں میں اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کریں دل کھولیں وسائل کو بڑے دل سے عوام کے ٹاؤنز میں تقسیم کریں۔

اختتام پر مغرب کی نماز کی ادائیگی اور پر تکلف چائے کے ساتھ عبد الکریم صاحب کے توسط سے ڈاکٹر فواد کی میزبانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم پارکنگ کی طرف بڑھے جہاں ہم وفاقی اردو یونیورسٹی کے دگرگوں حالات کے گھیرے میں آ کر بے کار ہوچکے جی ہاں کار ہوتے ہوئے بھی کار کی ٹینکی کا پٹرول جس تنخواہ سے پڑتا ہے اس تنخواہ کی تین ماہ سے ہم نے شکل بھی نہیں دیکھی ایسے میں ’’بے کاری‘‘ کی سزا میں موٹر سائیکل پر سوار ہوکر واپس آ گئے مگر تب سے اب تک یہی سوچ رہے ہیں کاش عوام ووٹ ڈالنے سے پہلے سوچ لیا کریں کہ اقتدار کی مسند پر جن کو بٹھاتے ہیں وہی اختیارات کا غلط استعمال کر کے عوام کو قبرستان تک پہنچاتے ہیں وفاقی اردو یونیورسٹی کرپٹ مافیا کے ہاتھوں لٹی پٹی تھی ہی اس کے تابوت میں آخری کیل عارف علوی کی منافقانہ سیاست نے گاڑ دی آج اسی وفاقی اردو یونیورسٹی کے پاس اتنا بجٹ بھی نہیں ہے کہ اپنے ملازمین کی ہر ماہ تنخواہیں ادا کرے۔ ترقیاتی کاموں کی تو بات ہی چھوڑ دیں جب تک جماعت اسلامی بلدیاتی اداروں میں بیٹھی ہے اداروں اور عوام کی خدمت کے عزم پر کاربند رہے گی مگر تین سال بعد کیا ہوگا؟؟

اک سوالیہ نشان ہے عوام کو ٹھوکریں کھا کر سبق حاصل ہو چکا؟ کیا اگلی مرتبہ خدمت کرنے والوں کو اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے والوں کو پوری طاقت اور بھاری اکثریت سے کامیاب کرائے گی؟ وفاقی اردو یونیورسٹی کا مستقبل کیا ہوگا؟ وفاقی اردو یونیورسٹی کے ملازمین کو تنخواہیں کون ادا کرے گا؟ سیاسی بھرتیوں کے 235 گھس پیٹیوں کو کون نکالنے کی جرأت کرے گا؟ اور، اور، اور اگر یہ سب نہ ہوا تو پھر وفاقی اردو یونیورسٹی کے ملازمین اور ان کے خاندانوں کی لاشیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر سیاست کون کرے گا؟ جس کو بعد میں یہ سیاست کرنی ہے ان سے درخواست ہے کہ خدارا آگے بڑھیں اس سے قبل کہ کوئی انسانی سانحہ درپیش ہو وفاقی اردو یونیورسٹی کو اس بحران سے نکالیں اٹھیں آگے بڑھیں ہم ان بلدیاتی اداروں سے ٹریکٹر ٹرالیاں تو مانگ کر جامعہ اْردو کو سنوار رہے ہیں مگر جب ہماری سفید پوشیاں کفن پوش ہوگئیں تو کراچی کے قبرستانوں میں مفت میں دفنانے کی اجازت ملے گی؟؟